أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي غَسْلِ دَمِ الْحَيْضِ مِنَ الثَّوْبِ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُتِّيهِ ثُمَّ اقْرُصِيهِ بِالْمَاءِ ثُمَّ رُشِّيهِ وَصَلِّي فِيهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأُمِّ قَيْسِ بْنتِ مِحْصَنٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَسْمَاءَ فِي غَسْلِ الدَّمِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الدَّمِ يَكُونُ عَلَى الثَّوْبِ فَيُصَلِّي فِيهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهُ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ إِذَا كَانَ الدَّمُ مِقْدَارَ الدِّرْهَمِ فَلَمْ يَغْسِلْهُ وَصَلَّى فِيهِ أَعَادَ الصَّلَاةَ و قَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا كَانَ الدَّمُ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ أَعَادَ الصَّلَاةَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَلَمْ يُوجِبْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ يَجِبُ عَلَيْهِ الْغَسْلُ وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ وَشَدَّدَ فِي ذَلِكَ
کتاب: طہارت کے احکام ومسائل
کپڑے سے حیض کاخون دھونے کا بیان
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے، تو آپﷺ نے فرمایا:' اسے کھرچ دو، پھراُسے پانی سے مل دو، پھراس پر پانی بہادو اور اس میں صلاۃ پڑھو'۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- خون کے دھونے کے سلسلے میں اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- کپڑے میں جوخون لگ جائے اوراسے دھونے سے پہلے اس میں صلاۃپڑھ لے ... اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے؛ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدارمیں ہو اور دھوے بغیر صلاۃ پڑھ لے تو صلاۃ دہرائے ۱؎ ،اور بعض کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہوتوصلاۃ دہرائے ورنہ نہیں، یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے ۲؎ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے صلاۃ کے دہرانے کو واجب نہیں کہا ہے گرچہ خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۳؎ ، جب کہ شافعی کہتے ہیں کہ اس پر دھونا واجب ہے گو درہم کی مقدار سے کم ہو ، اس سلسلے میں انہوں نے سختی برتی ہے ۴؎ ۔
تشریح :
۱؎ : سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں 'إذا كان في الثوب قدر الدرهم من الدم غسل الثوب وأعيدت الصلاة' امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہاہے کیو نکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکرالحدیث ہے۔
۲؎ : اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفوعنہ کے درجہ میں قراردیاہے اوراس کی تحدید درہم کی مقدارسے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے ۔
۳؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں'إن النبي ﷺ كان في غزوة ذات الرقاع فرمى رجل بسهم فنزفه الدم فركع وسجد ومضى في صلاته' لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون، اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔
۴؎ : کیو نکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں ،نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جونص ہے (وہ یہی حدیث ہے) وہ مطلق ہے اس میں کم وزیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اوریہی راجح قول ہے۔
۱؎ : سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں 'إذا كان في الثوب قدر الدرهم من الدم غسل الثوب وأعيدت الصلاة' امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہاہے کیو نکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکرالحدیث ہے۔
۲؎ : اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفوعنہ کے درجہ میں قراردیاہے اوراس کی تحدید درہم کی مقدارسے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے ۔
۳؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں'إن النبي ﷺ كان في غزوة ذات الرقاع فرمى رجل بسهم فنزفه الدم فركع وسجد ومضى في صلاته' لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون، اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔
۴؎ : کیو نکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں ،نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جونص ہے (وہ یہی حدیث ہے) وہ مطلق ہے اس میں کم وزیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اوریہی راجح قول ہے۔