جامع الترمذي - حدیث 1375

أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب فِي الْوَقْفِ​ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَبْتُ مَالًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ فَمَا تَأْمُرُنِي قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهَا لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ تَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ قَالَ فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ فَقَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ ابْنُ عَوْنٍ فَحَدَّثَنِي بِهِ رَجُلٌ آخَرُ أَنَّهُ قَرَأَهَا فِي قِطْعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ إِسْمَعِيلُ وَأَنَا قَرَأْتُهَا عِنْدَ ابْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَكَانَ فِيهِ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ لَا نَعْلَمُ بَيْنَ الْمُتَقَدِّمِينَ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا فِي إِجَازَةِ وَقْفِ الْأَرَضِينَ وَغَيْرِ ذَلِكَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1375

کتاب: حکومت وقضاء کے بیان میں وقف کا بیان​ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے ) کچھ زمین ملی ،تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا ۔(اس کے بارے میں) آپ مجھے کیاحکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: 'اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اوراُسے (پیداوار کو) صدقہ کردو،تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیاکہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎ ، اور اسے فقیروں میں ، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں،اللہ کے راستے (جہاد ) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خرچ کیاجائے۔ اورجو اس کا والی (نگراں) ہواس کے لیے اس میں سے معروف طریقے سے کھانے اور دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جبکہ وہ اس میں سے ذخیرہ اندوزی کرنے والانہ ہو۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے اسے محمد بن سیرین سے بیان کیا تو انہوں نے 'غیر متمول فیہ'کے بجائے ' غیر متأثل مالا' کہا۔ ابن عون کہتے ہیں: مجھ سے اسے ایک اورآدمی نے بیان کیا ہے کہ اس نے اس وقف نامے کو پڑھاتھا جو ایک لال چمڑے پر تحریر تھا اور اس میں بھی'غیر متأثل مالا ' کے الفاظ تھے۔ اسماعیل کہتے ہیں: میں نے اس وقف نامے کو عبیداللہ بن عمر کے بیٹے کے پاس پڑھا، اس میں بھی 'غیر متأثل مالا' کے الفاظ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ متقدمین میں سے ہم کسی کونہیں جانتے ہیں جس نے زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں اختلاف کیا ہو۔
تشریح : ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیاجاسکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرمالیتے۔ (دیکھیے: فتح الباری کتاب الوصایا، باب ۲۹ (۲۷۷۳)۔ ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیاجاسکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرمالیتے۔ (دیکھیے: فتح الباری کتاب الوصایا، باب ۲۹ (۲۷۷۳)۔