أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَوِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ فَقَالَ خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَضَالَّةُ الْإِبِلِ قَالَ فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوْ احْمَرَّ وَجْهُهُ فَقَالَ مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى تَلْقَى رَبَّهَا حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَحَدِيثُ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ
کتاب: حکومت وقضاء کے بیان میں
گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ(گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا، توآپ نے فرمایا: 'سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کا سربند ، اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو، پھراسے خرچ کرلو اور اگر اس کا مالک آجائے تو اُسے ادا کردو'، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! گمشدہ بکری کاکیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا:' اسے پکڑکرباندھ لو، کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑ یے کے لیے'۔ اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس پر نبی اکرمﷺناراض ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے گال لال پیلا ہوگئے۔ یا آپ کا چہرہ لال پیلا ہوگیا اور آپ نے فرمایا:' تم کواس سے کیا سروکار؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا اور اس کی مشک ہے ۱؎ ( وہ پانی پر جاسکتا ہے اور درخت سے کھاسکتا ہے) یہاں تک کہ اپنے مالک سے جاملے'۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ان سے اوربھی طرق سے یہ حدیث مروی ہے۔ منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث جسے انہوں نے زید بن خالد سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،۳- اور ان سے یہ اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے۔
تشریح :
۱؎ : جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اورمشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھرلیتا ہے اور باربارپانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کاخوف نہیں وہ خوداپنا دفاع کرلیتاہے اس لیے اسے پکڑکرباندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
۱؎ : جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اورمشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھرلیتا ہے اور باربارپانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کاخوف نہیں وہ خوداپنا دفاع کرلیتاہے اس لیے اسے پکڑکرباندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔