جامع الترمذي - حدیث 1367

أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابُ مَا جَاءَ فِي النُّحْلِ وَالتَّسْوِيَةِ بَيْنَ الوَلَدِ صحيح حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ يُحَدِّثَانِ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ نَحَلَ ابْنًا لَهُ غُلَامًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْهِدُهُ فَقَالَ أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ مِثْلَ مَا نَحَلْتَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَارْدُدْهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ التَّسْوِيَةَ بَيْنَ الْوَلَدِ حَتَّى قَالَ بَعْضُهُمْ يُسَوِّي بَيْنَ وَلَدِهِ حَتَّى فِي الْقُبْلَةِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ يُسَوِّي بَيْنَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلِ وَالْعَطِيَّةِ يَعْنِي الذَّكَرُ وَالْأُنْثَى سَوَاءٌ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَقَالَ بَعْضُهُمْ التَّسْوِيَةُ بَيْنَ الْوَلَدِ أَنْ يُعْطَى الذَّكَرُ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ مِثْلَ قِسْمَةِ الْمِيرَاثِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1367

کتاب: حکومت وقضاء کے بیان میں ہبہ کرتے وقت سب لڑکوں کو برابر دینے کے بیان میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو ایسا ہی غلام عطیہ میں دیا ہے ۱؎ جیسا اس کو دیا ہے؟ ‘‘ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ’’ تو اسے واپس لے لو‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲-یہ اور بھی سندوں سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ ۳-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ اولاد کے درمیان (عطیہ دینے میں) برابری کو ملحوظ رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے تو کہا ہے کہ بوسہ لینے میں بھی اپنی اولاد کے درمیان برابری برقرار رکھے، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: بخشش اور عطیہ میں اپنی اولاد یعنی بیٹا اور بیٹی کے درمیان بھی برابری برقرار رکھے۔ یہی سفیان ثوری کا قول ہے، ۵- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: اولاد کے درمیان برابری یہی ہے کہ میراث کی طرح لڑکے کو لڑکی کے دوگنا دیا جائے۔
تشریح : ۱؎: اولاد کو ہبہ کر نے میں مساوات کا یہ حکم جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے، موطا میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے مرض الموت میں عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا تھا ’’ إني كنت نحلت نحلا فلو كنت اخترتيه لكان لك وإنما هو اليوم للوارث‘‘ (میں نے تم کو کچھ ہبہ کے طور پر دینا چاہا تھا اگر وہ تم لے لیتی تو وہ تمہارا ہو جاتا، اور اب تو وہ وارثوں ہی کا ہے، اسی طرح عمر رضی الله عنہ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ ہبہ کے طور پر دیا تھا، امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے، یہ لوگ شیخین (ابوبکر وعمر رضی الله عنہما) کے ان اقدامات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے راضی تھے۔ ۱؎: اولاد کو ہبہ کر نے میں مساوات کا یہ حکم جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے، موطا میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے مرض الموت میں عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا تھا ’’ إني كنت نحلت نحلا فلو كنت اخترتيه لكان لك وإنما هو اليوم للوارث‘‘ (میں نے تم کو کچھ ہبہ کے طور پر دینا چاہا تھا اگر وہ تم لے لیتی تو وہ تمہارا ہو جاتا، اور اب تو وہ وارثوں ہی کا ہے، اسی طرح عمر رضی الله عنہ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ ہبہ کے طور پر دیا تھا، امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے، یہ لوگ شیخین (ابوبکر وعمر رضی الله عنہما) کے ان اقدامات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے راضی تھے۔