أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّقْبَى صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا وَالرُّقْبَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الرُّقْبَى جَائِزَةٌ مِثْلَ الْعُمْرَى وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَفَرَّقَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ بَيْنَ الْعُمْرَى وَالرُّقْبَى فَأَجَازُوا الْعُمْرَى وَلَمْ يُجِيزُوا الرُّقْبَى قَالَ أَبُو عِيسَى وَتَفْسِيرُ الرُّقْبَى أَنْ يَقُولَ هَذَا الشَّيْءُ لَكَ مَا عِشْتَ فَإِنْ مُتَّ قَبْلِي فَهِيَ رَاجِعَةٌ إِلَيَّ وَقَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ الرُّقْبَى مِثْلُ الْعُمْرَى وَهِيَ لِمَنْ أُعْطِيَهَا وَلَا تَرْجِعُ إِلَى الْأَوَّلِ
کتاب: حکومت وقضاء کے بیان میں
رقبیٰ کا بیان
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'عمریٰ جس کودیا گیا اس کے گھر والوں کاہے اوررقبیٰ ۱؎ بھی جس کودیا گیاہے اس کے گھروالوں کا ہے '۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اور بعض نے اسی سند سے ابوزبیرسے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسے جابر سے موقوفاً نقل کیا ہے، اسے نبی اکرمﷺتک مرفوع نہیں کیا ہے، ۳- رقبیٰ کی تفسیر یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے کہ یہ چیز جب تک تم زندہ رہوگے تمہاری ہے اور اگر تم مجھ سے پہلے مرگئے تو یہ پھر میری طرف لوٹ آئے گی،۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ عمریٰ کی طرح رقبیٰ بھی جسے دیا گیا ہے اس کے گھروالوں ہی کاہوگا۔ احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔اوراہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے عمریٰ اوررقبیٰ کے درمیان فرق کیا ہے،ان لوگوں نے عمریٰ کو تومعمر(جس کے نام چیزدی گئی تھی) کی موت کے بعداس کے ورثاء کاحق بتایاہے اوررقبیٰ کو کہاہے کہ ورثاء کاحق نہیں ہوگا بلکہ وہ دینے والی کی طرف لوٹ جائے گا۔
تشریح :
۱؎ : 'رقبیٰ' 'رقب' سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔ اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔ موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔ واہب کو بھی نہیں لوٹے گی، جیسے عمریٰ میں ہے۔رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ 'یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی، تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی، اور اگر میں مر گیا تو تمہاری ہی رہے گی، پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔' اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتاتھا۔
۱؎ : 'رقبیٰ' 'رقب' سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔ اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔ موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔ واہب کو بھی نہیں لوٹے گی، جیسے عمریٰ میں ہے۔رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ 'یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی، تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی، اور اگر میں مر گیا تو تمہاری ہی رہے گی، پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔' اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتاتھا۔