أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ عَلَى مَنْ يُقْضَى لَهُ بِشَيْئٍ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَهُ صحيح حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَإِنْ قَضَيْتُ لِأَحَدٍ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
کتاب: حکومت وقضاء کے بیان میں
قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کامال لینے پرواردوعید کا بیان
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہومیں ایک انسان ہی ہوں، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں د وسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوادوں تو گویا میں اُسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہاہوں، لہذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اورعائشہ سے بھی روایت ہے۔
تشریح :
۱؎ : یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔
۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے، حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدانہیں کرسکتا، اورنفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام، جمہورکی یہی رائے ہے، لیکن امام ابوحنیفہ کا کہناہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذہوجاتاہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیادپر فیصلہ دے دیتاہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ اس مردکے لیے حلال ہوجائے گی ۔
۱؎ : یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔
۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے، حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدانہیں کرسکتا، اورنفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام، جمہورکی یہی رائے ہے، لیکن امام ابوحنیفہ کا کہناہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذہوجاتاہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیادپر فیصلہ دے دیتاہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ اس مردکے لیے حلال ہوجائے گی ۔