جامع الترمذي - حدیث 1309

أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي مَطْلِ الْغَنِيِّ أَنَّهُ ظُلْمٌ​ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَإِذَا أُحِلْتَ عَلَى مَلِيءٍ فَاتْبَعْهُ وَلَا تَبِعْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَاهُ إِذَا أُحِيلَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى مَلِيءٍ فَاحْتَالَهُ فَقَدْ بَرِئَ الْمُحِيلُ وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْمُحِيلِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا تَوِيَ مَالُ هَذَا بِإِفْلَاسِ الْمُحَالِ عَلَيْهِ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْأَوَّلِ وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِ عُثْمَانَ وَغَيْرِهِ حِينَ قَالُوا لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى قَالَ إِسْحَقُ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوِيَ هَذَا إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى آخَرَ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ مَلِيٌّ فَإِذَا هُوَ مُعْدِمٌ فَلَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1309

کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل مال دار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے​ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:' مال دار آدمی کاقرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔اور جب تم کسی مال دار کے حوالے کئے جاؤ تو اسے قبول کرلو، اور ایک بیع میں دوبیع نہ کرو'۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی قرض وصول کرنے میں کسی مالدار کے حوالے کیاجائے تواسے قبول کرنا چاہئے،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کوکسی مال دار کے حوالے کیا جائے اور وہ حوالہ قبول کرلے تو حوالے کرنے والا بری ہوجائے گا اور قرض خواہ کے لیے درست نہیں کہ پھر حوالے کرنے والے کی طرف پلٹے۔یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔ ۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں: کہ محتال علیہ (جس آدمی کی طرف تحویل کیاگیاہے) کے مفلس ہوجانے کی وجہ سے اس کے مال کے ڈوب جانے کا خطرہ ہوتو قرض خواہ کے لیے جائزہوگا کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ جائے، ان لوگوں نے اس بات پر عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے،۵- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اس حدیث 'لیس علی مال مسلم توی ' (مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قرض خواہ کسی کے حوالے کیاگیا اور اسے مال دار سمجھ رہاہو لیکن درحقیقت وہ غریب ہو تو ایسی صورت میں مسلمان کا مال ضائع نہ ہوگا ( اور وہ اصل قرض دار سے اپنا مال طلب کرسکتا ہے)