جامع الترمذي - حدیث 1304

أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّجْشِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قُتَيْبَةُ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَنَاجَشُوا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا النَّجْشَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَالنَّجْشُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الَّذِي يَفْصِلُ السِّلْعَةَ إِلَى صَاحِبِ السِّلْعَةِ فَيَسْتَامُ بِأَكْثَرَ مِمَّا تَسْوَى وَذَلِكَ عِنْدَمَا يَحْضُرُهُ الْمُشْتَرِي يُرِيدُ أَنْ يَغْتَرَّ الْمُشْتَرِي بِهِ وَلَيْسَ مِنْ رَأْيِهِ الشِّرَاءُ إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَخْدَعَ الْمُشْتَرِيَ بِمَا يَسْتَامُ وَهَذَا ضَرْبٌ مِنْ الْخَدِيعَةِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنْ نَجَشَ رَجَلٌ فَالنَّاجِشُ آثِمٌ فِيمَا يَصْنَعُ وَالْبَيْعُ جَائِزٌ لِأَنَّ الْبَائِعَ غَيْرُ النَّاجِشِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1304

کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل نجش کے حرام ہونے کا بیان​ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'تم نجش نہ کرو'۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اوربعض اہل علم کااسی پرعمل ہے، ان لوگوں نے نجش کو ناجائزکہا ہے، ۴- نجش یہ ہے کہ ایساآدمی جوسامان کے اچھے بُرے کی تمیزرکھتاہوسامان والے کے پاس آئے اور اصل قیمت سے بڑھا کر سامان کی قیمت لگائے اور یہ ایسے وقت ہوجب خریداراس کے پاس موجودہو، مقصدصرف یہ ہوکہ اس سے خریدار دھوکہ کھاجائے اوروہ(دام بڑھاچڑھاکر لگانے والا) خریدنے کا خیال نہ رکھتاہو بلکہ صرف یہ چاہتاہو کہ اس کی قیمت لگانے کی وجہ سے خریدار دھوکہ کھاجائے۔یہ دھوکہ ہی کی ایک قسم ہے،۵- شافعی کہتے ہیں: اگر کوئی آدمی نجش کرتا ہے تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ یعنی نجش کرنے والا گنہگار ہوگا اور بیع جائز ہوگی، اس لیے کہ بیچنے والاتونجش نہیں کررہاہے۔