جامع الترمذي - حدیث 1290

أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الثُّنْيَا​ءِ صحيح حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُخَابَرَةِ وَالثُّنْيَا إِلَّا أَنْ تُعْلَمَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1290

کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان​ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کومستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے بروایت یونس بن عبیدجسے یونس نے عطاء سے اورعطاء نے جابر سے روایت کی ہے حسن صحیح غریب ہے۔
تشریح : ۱؎ : محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرگزرچکی ہے دیکھئے حدیث نمبر(۱۲۲۴)۔ ۲؎ : مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یاربع پیداوارپر زمین بٹائی پر لینا، یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں، بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوارمزارع کے لیے اورکسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے، ایساکرنے سے منع کیاگیاہے، کیونکہ بسااوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اورمالک والاتباہ ہوجاتاہے ،اورکبھی اس کے برعکس ہوجاتاہے، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتاہے ،اس لیے ایساکرنے سے منع کیا گیاہے۔ ۳؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپناباغ بیچتاہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیو نکہ مستثنیٰ کئے ہو ئے درخت مجہول ہیں۔اوراگرتعیین کردے توجائز ہے جیساکہ اوپرحدیث میں اس کی اجازت موجودہے۔ ۱؎ : محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرگزرچکی ہے دیکھئے حدیث نمبر(۱۲۲۴)۔ ۲؎ : مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یاربع پیداوارپر زمین بٹائی پر لینا، یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں، بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوارمزارع کے لیے اورکسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے، ایساکرنے سے منع کیاگیاہے، کیونکہ بسااوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اورمالک والاتباہ ہوجاتاہے ،اورکبھی اس کے برعکس ہوجاتاہے، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتاہے ،اس لیے ایساکرنے سے منع کیا گیاہے۔ ۳؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپناباغ بیچتاہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیو نکہ مستثنیٰ کئے ہو ئے درخت مجہول ہیں۔اوراگرتعیین کردے توجائز ہے جیساکہ اوپرحدیث میں اس کی اجازت موجودہے۔