جامع الترمذي - حدیث 1284

أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْفَرْقِ بَيْنَ الأَخَوَيْنِ أَوْ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ​ ضعيف حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ وَهَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامَيْنِ أَخَوَيْنِ فَبِعْتُ أَحَدَهُمَا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَلِيُّ مَا فَعَلَ غُلَامُكَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ رُدَّهُ رُدَّهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ فِي الْبَيْعِ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُوَلَّدَاتِ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي أَرْضِ الْإِسْلَامِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ إِنِّي قَدْ اسْتَأْذَنْتُهَا بِذَلِكَ فَرَضِيَتْ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1284

کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل غلاموں کی بیع میں دوبھائیوں یا ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کی حرام ہے​ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے دوغلام دیئے جو آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: 'علی! تمہارا غلام کیا ہوا؟' میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے ایک کوبیچ دیا ہے) تو آپ نے فرمایا:' اُسے واپس لوٹالو،اُسے واپس لوٹالو'۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم بیچتے وقت (رشتہ دار) قیدیوں کے درمیان جدائی ڈالنے کوناجائزکہا ہے،۳- اوربعض اہل علم نے ان لڑکوں کے درمیان جدائی کو جائزقراردیا ہے جو سرزمین اسلام میں پیداہوئے ہیں۔ پہلاقول ہی زیادہ صحیح ہے، ۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بیچتے وقت ماں اور اس کے لڑکے کے درمیان تفریق ،چنانچہ ان پر یہ اعتراض کیاگیا تو انہوں نے کہا: میں نے اس کی ماں سے اس کی اجازت مانگی تو وہ اس پر راضی ہے۔
تشریح : نوٹ:(میمون کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے ، لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے) نوٹ:(میمون کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے ، لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے)