جامع الترمذي - حدیث 1213

أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الشِّرَائِ إِلَى أَجَلٍ​ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمَرُو بْنُ عَلِيٍّ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَانِ قِطْرِيَّانِ غَلِيظَانِ فَكَانَ إِذَا قَعَدَ فَعَرِقَ ثَقُلَا عَلَيْهِ فَقَدِمَ بَزٌّ مِنْ الشَّامِ لِفُلَانٍ الْيَهُودِيِّ فَقُلْتُ لَوْ بَعَثْتَ إِلَيْهِ فَاشْتَرَيْتَ مِنْهُ ثَوْبَيْنِ إِلَى الْمَيْسَرَةِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ مَا يُرِيدُ إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِمَالِي أَوْ بِدَرَاهِمِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَبَ قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ وَآدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ أَيْضًا عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ فِرَاسٍ الْبَصْرِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ يَقُولُ سُئِلَ شُعْبَةُ يَوْمًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ لَسْتُ أُحَدِّثُكُمْ حَتَّى تَقُومُوا إِلَى حَرَمِيِّ بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ فَتُقَبِّلُوا رَأَسَهُ قَالَ وَحَرَمِيٌّ فِي الْقَوْمِ قَالَ أَبُو عِيسَى أَيْ إِعْجَابًا بِهَذَا الْحَدِيثِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1213

کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خرید نے کی رخصت کا بیان​ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہوجاتے،شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تومیں نے عرض کیا:کاش ! آپ اس کے پاس کسی کوبھیجتے اور اس سے دوکپڑے اس وعدے پر خریدلیتے کہ جب گنجائش ہوگی توقیمت دے دیں گے ، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا،تواس نے کہا: جووہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراھم ہڑپ کرلیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'وہ جھوٹاہے، اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اورامانت کو سب سے زیادہ اداکرنے والاہوں' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲- اسے شعبہ نے بھی عمار ہ بن ابی حفصہ سے روایت کیا ہے،۳- ابوداود طیالسی کہتے ہیں: ایک دن شعبہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاگیا تو انہوں نے کہا: میں تم سے اس وقت اسے نہیں بیان کرسکتاجب تک کہ تم کھڑے ہوکرحرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا سرنہیں چومتے اورحرمی (وہاں)لوگوں میں موجود تھے، انہوں نے اس حدیث سے حد درجہ خوش ہوتے ہوئے یہ بات کہی،۴- اس باب مین ابن عباس ،ا نس اور اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
تشریح : ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھارسوداکرنا درست ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا، اسی سے باب پراستدلال ہے۔ ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھارسوداکرنا درست ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا، اسی سے باب پراستدلال ہے۔