جامع الترمذي - حدیث 1209

أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي التُّجَّارِ وَتَسْمِيَةِ النَّبِيِّ ﷺ إِيَّاهُمْ​ ضعيف حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَابِرٍ وَهُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1209

کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل تاجروں کاذکراور نبی اکرمﷺکے ان کے نام رکھنے کا بیان​ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:' سچا اور امانت دار تاجر( قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا'۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے بروایت ثوری صرف اسی سند سے جانتے ہیں انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے، ۲- اور ابوحمزہ کانام عبداللہ بن جابرہے اوروہ بصرہ کے شیخ ہیں، ۳- دوسری سندسے سفیان ثوری نے ابوحمزہ سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
تشریح : نوٹ:( ابن ماجہ (۲۱۳۹) اور مستدرک الحاکم (۲۱۴۲) میں یہ حدیث ابن عمر سے آئی ہے جس میں نبيين اور صديقين کا ذکر نہیں ہے ، اور اس میں ایک راوی کلثوم بن جوشن ہیں ، جس کے بارے میں حاکم کہتے ہیں کہ وہ قلیل الحدیث ہیں، اور بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں کی ہے ، اور اور حسن بصری کی مرسل روایت اس حدیث کی شاہد ہے، ابوحاتم الرازی نے ان کو ضعیف الحدیث کہا ہے ، اور ابن معین نے لیس بہ بأس ، اور امام بخاری نے توثیق کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن ان کی حدیث سے ابوسعید خدری کی حدیث جس میں حسن بصری ہیں،کوتقویت مل گئی ،اسی وجہ سے البانی صاحب نے ابوسعید خدری کی حدیث کوصحیح لغیرہ کہا ، اور ابن عمر کی حدیث کو حسن صحیح ، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۱۷۸۲، وتراجع الألبانی ۵۲۵) نوٹ:( ابن ماجہ (۲۱۳۹) اور مستدرک الحاکم (۲۱۴۲) میں یہ حدیث ابن عمر سے آئی ہے جس میں نبيين اور صديقين کا ذکر نہیں ہے ، اور اس میں ایک راوی کلثوم بن جوشن ہیں ، جس کے بارے میں حاکم کہتے ہیں کہ وہ قلیل الحدیث ہیں، اور بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں کی ہے ، اور اور حسن بصری کی مرسل روایت اس حدیث کی شاہد ہے، ابوحاتم الرازی نے ان کو ضعیف الحدیث کہا ہے ، اور ابن معین نے لیس بہ بأس ، اور امام بخاری نے توثیق کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن ان کی حدیث سے ابوسعید خدری کی حدیث جس میں حسن بصری ہیں،کوتقویت مل گئی ،اسی وجہ سے البانی صاحب نے ابوسعید خدری کی حدیث کوصحیح لغیرہ کہا ، اور ابن عمر کی حدیث کو حسن صحیح ، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۱۷۸۲، وتراجع الألبانی ۵۲۵)