أَبْوَابُ الطَّلَاقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ أَيْنَ تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا صحيح حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ أَنْبَأَنَا مَعْنٌ أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَخْبَرَتْهَا أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ قَالَتْ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ وَلَا نَفَقَةً قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَتْ فَانْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ أَوْ فِي الْمَسْجِدِ نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ فَقَالَ كَيْفَ قُلْتِ قَالَتْ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي قَالَ امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ قَالَتْ فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا قَالَتْ فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرْتُهُ فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ لَمْ يَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَاءَتْ وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا قَالَ أَبُو عِيسَى وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل شوہرکی وفات کے بعدعورت عدت کہاں گزارے؟ زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا جوابوسعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبردی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھروالوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں(ہوایہ تھا کہ)ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پران سے ملے ،توان غلاموں نے انہیں مارڈالا۔فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھاکہ میں اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کانہ تو کوئی مکان چھوڑ اہے اورنہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' ہاں'، چنانچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی۔ ( یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے) پھر آپ نے پوچھا: 'تم نے کیسے کہا؟میں نے وہی قصہ دہرادیاجومیں نے آپ سے اپنے شوہرکے بارے میں ذکرکیاتھا، آپ نے فرمایا:تم اپنے گھرہی میں رہویہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہوجائے'،چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اورمجھ سے اس بارے میں پوچھاتو میں نے ان کو بتایا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے،یہ لوگ عدت گزارنے والی عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے ہیں کہ اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہوجب تک کہ وہ اپنی عدت نہ گزارلے۔یہی سفیان ثوری ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے، ۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں عدت نہ گزارے تو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے عدت گزارے، ۴- (امام ترمذی) کہتے ہیں: پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔