جامع الترمذي - حدیث 1202

أَبْوَابُ الطَّلَاقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي اللِّعَانِ​ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سُئِلْتُ عَنْ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ فَقُمْتُ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَقِيلَ لِي إِنَّهُ قَائِلٌ فَسَمِعَ كَلَامِي فَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلَّا حَاجَةٌ قَالَ فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ قَالَ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَاتِ الَّتِي فِي سُورَةِ النُّورِ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ حَتَّى خَتَمَ الْآيَاتِ فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلَا الْآيَاتِ عَلَيْهِ وَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَتْ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ قَالَ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَحُذَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1202

کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل لعان کا بیان​ سعید بن جبیر کہتے ہیں: مصعب بن زبیر کے زمانۂ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیاکہ کیاان کے درمیان تفریق کردی جائے؟تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیاجواب دوں؟چنانچہمیں اپنی جگہ سے اٹھ کرعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھرآیااور اندر آنے کی اجازت مانگی ،بتایا گیاکہ وہ قیلولہ کررہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا:ابن جبیر !آجاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کرآئی ہوگی۔سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیاتوکیادیکھتاہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پرلیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمن! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی؟ کہا: سبحان اللہ ! ہاں، سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا ۔ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اوراس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو برائی کرتے دیکھے تو کیاکرے؟ اگر کچھ کہتاہے تو بڑی بات کہتاہے، اورا گر خاموش رہتا ہے تووہ سنگین معاملہ پر خاموش رہتاہے۔ابن عمر کہتے ہیں نبی اکرمﷺ خاموش رہے اورآپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھرجب کچھ دن گزرے تو وہ نبی اکرمﷺ کے پاس(دوبارہ) آیا اوراس نے عرض کیا: میں نے آپ سے جو مسئلہ پوچھا تھا میں اس میں خود مبتلاکردیاگیا ہوں۔تب اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں{وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُن لَّہُمْ شُہَدَاء إِلاًّ أَنفُسُہُمْ} (النور: 6) (یعنی جولوگ اپنی بیویوں پر تہمت زنا لگاتے ہیں اور ان کے پاس خود اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہیں۔)یہاں تک کہ یہ آیتیں ختم کیں، پھر آپ نے اس آدمی کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں، اوراسے نصیحت کی اور اس کی تذکیرکی اور بتایاکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پراس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے، میں نے اس پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے۔پھر آپ نے وہ آیتیں عورت کے سامنے دہرائیں، اس کو نصیحت کی، اوراس کی تذکیرکی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا: نہیں ، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ، وہ سچ نہیں بول رہاہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ نے مرد سے ابتداء کی، اس نے اللہ کانام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ گواہی دی کہ اگروہ جھوٹا ہو تو اس پراللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوبارہ آپ نے عورت سے یہی باتیں کہلوائیں، اس نے اللہ کانام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، اور پانچویں مرتبہ اس نے گواہی دی کہ اگر اس کا شوہر سچاہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔پھر آپ نے ان دونوں میں تفریق کردی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سہل بن سعد، ابن عباس ، ابن مسعود اور حذیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔
تشریح : ۱؎ : لعان کا حکم آیت کریمہ{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء} (النور:۶)میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مردچار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچاہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو، اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچاہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، ایسا کہنے سے شوہرحدقذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔ ۱؎ : لعان کا حکم آیت کریمہ{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء} (النور:۶)میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مردچار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچاہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو، اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچاہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، ایسا کہنے سے شوہرحدقذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔