جامع الترمذي - حدیث 1201

أَبْوَابُ الطَّلَاقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الإِيلاَءِ​ ضعيف حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ أَنْبَأَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ وَحَرَّمَ فَجَعَلَ الْحَرَامَ حَلَالًا وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي مُوسَى قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ دَاوُدَ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ وَغَيْرُهُ عَنْ دَاوُدَ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ وَالْإِيلَاءُ هُوَ أَنْ يَحْلِفَ الرَّجُلُ أَنْ لَا يَقْرَبَ امْرَأَتَهُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ فَأَكْثَرَ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيهِ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ يُوقَفُ فَإِمَّا أَنْ يَفِيءَ وَإِمَّا أَنْ يُطَلِّقَ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1201

کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل ایلاء کا بیان​ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایلاء ۱؎ کیا اور (ان سے صحبت کرنا اپنے اوپر)حرام کرلیا۔ پھر آپ نے حرام کو حلال کرلیا اور قسم کا کفارہ اداکردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- مسلمہ بن علقمہ کی حدیث کوجسے انہوں نے داودسے روایت کی ہے: علی بن مسہر وغیرہ نے بھی داودسے (روایت کی ہے مگر) داودنے شعبی سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایلاء کیا۔اس میں مسروق اورعائشہ کے واسطے کاذکرنہیں ہے، اوریہ مسلمہ بن علقمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲- اس باب میں انس اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ایلاء یہ ہے کہ آدمی چارماہ یا اس سے زیادہ دنوں تک اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھالے،۳- جب چارماہ گزرجائیں تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب چارماہ گزرجائیں تواسے قاضی کے سامنے کھڑا کیاجائے گا، یا تورجوع کرلے یا طلاق دے دے۔ ۴-صحابہ کرام وغیرہم میں بعض اہل علم کاکہناہے کہ جب چارماہ گزرجائیں توایک طلاق بائن خودبخود پڑجاتی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
تشریح : ۱؎ : ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں، اورشرع میں ایلاء یہ ہے کہ شوہر جو جماع کی طاقت رکھتاہو اللہ کے نام کی یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی کوچارماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے جدارکھے گا، اور اس سے جماع نہیں کرے گا، اس تعریف کی روشنی سے نبی اکرمﷺ کا یہ ایلاء لغوی اعتبارسے تھا اور مباح تھا کیو نکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا، اوراس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات نے آپ سے مزیدنفقہ کا مطالبہ کیاتھا، ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑلے تو اس پر کفارئہ یمین لازم ہوگا اور کفارئہ یمین دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑاپہنانایا ایک غلام آزادکرناہے، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے صوم رکھناہے۔ نوٹ:(سند میں مسلمہ بن علقمہ صدوق توہیں مگر ان کا حافظہ کبھی خطا کرجاتاتھا، ان کے بالمقابل 'علی بن مسہر' زیادہ یاد داشت والے ہیں اور ان کی روایت میں ارسال 'ہے جسے مؤلف نے بیان کردیاہے) ۱؎ : ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں، اورشرع میں ایلاء یہ ہے کہ شوہر جو جماع کی طاقت رکھتاہو اللہ کے نام کی یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی کوچارماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے جدارکھے گا، اور اس سے جماع نہیں کرے گا، اس تعریف کی روشنی سے نبی اکرمﷺ کا یہ ایلاء لغوی اعتبارسے تھا اور مباح تھا کیو نکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا، اوراس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات نے آپ سے مزیدنفقہ کا مطالبہ کیاتھا، ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑلے تو اس پر کفارئہ یمین لازم ہوگا اور کفارئہ یمین دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑاپہنانایا ایک غلام آزادکرناہے، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے صوم رکھناہے۔ نوٹ:(سند میں مسلمہ بن علقمہ صدوق توہیں مگر ان کا حافظہ کبھی خطا کرجاتاتھا، ان کے بالمقابل 'علی بن مسہر' زیادہ یاد داشت والے ہیں اور ان کی روایت میں ارسال 'ہے جسے مؤلف نے بیان کردیاہے)