أَبْوَابُ الطَّلَاقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ لاَ طَلاَقَ قَبْلَ النِّكَاحِ حسن حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ وَلَا عِتْقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَالْحَسَنِ وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَشُرَيْحٍ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ فِي الْمَنْصُوبَةِ إِنَّهَا تَطْلُقُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ وَالشَّعْبِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ قَالُوا إِذَا وَقَّتَ نُزِّلَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ إِذَا سَمَّى امْرَأَةً بِعَيْنِهَا أَوْ وَقَّتَ وَقْتًا أَوْ قَالَ إِنْ تَزَوَّجْتُ مِنْ كُورَةِ كَذَا فَإِنَّهُ إِنْ تَزَوَّجَ فَإِنَّهَا تَطْلُقُ وَأَمَّا ابْنُ الْمُبَارَكِ فَشَدَّدَ فِي هَذَا الْبَابِ وَقَالَ إِنْ فَعَلَ لَا أَقُولُ هِيَ حَرَامٌ و قَالَ أَحْمَدُ إِنْ تَزَوَّجَ لَا آمُرُهُ أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَهُ و قَالَ إِسْحَقُ أَنَا أُجِيزُ فِي الْمَنْصُوبَةِ لِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَإِنْ تَزَوَّجَهَا لَا أَقُولُ تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ وَوَسَّعَ إِسْحَقُ فِي غَيْرِ الْمَنْصُوبَةِ وَذُكِرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ حَلَفَ بِالطَّلَاقِ أَنَّهُ لَا يَتَزَوَّجُ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ هَلْ لَهُ رُخْصَةٌ بِأَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِ الْفُقَهَاءِ الَّذِينَ رَخَّصُوا فِي هَذَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ إِنْ كَانَ يَرَى هَذَا الْقَوْلَ حَقَّا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُبْتَلَى بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَذَا فَلَمَّا ابْتُلِيَ أَحَبَّ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَلَا أَرَى لَهُ ذَلِكَ
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل
نکاح سے پہلے طلاق واقع نہ ہونے کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذرنہیں جس کا وہ اختیارنہ رکھتا ہو، اورنہ اسے ایسے شخص کوآزادکرنے کا اختیارہے جس کا وہ مالک نہ ہو، اورنہ اسے ایسی عورت کوطلاق دینے کاحق حاصل ہے جس کا وہ مالک نہ ہو'۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، معاذ بن جبل ، جابر، ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور یہ سب سے بہتر حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے،۳- یہی صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا قول ہے۔اورعلی بن ابی طالب ، ابن عباس ، جابر بن عبداللہ ، سعید بن المسیب،حسن ، سعید بن جبیر، علی بن حسین، شریح ، جابر بن زید رضی اللہ عنہم ، اورفقہاء تابعین میں سے بھی کئی لوگوں سے یہی مروی ہے۔اوریہی شافعی کا بھی قول ہے،۴- اورابن مسعود سے مروی ہے انہوں نے منصوبہ ۱؎ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ طلاق ہوجائے گی ،۵- اوراہل علم میں سے ابراہیم نخعی اورشعبی وغیرہ سے مروی ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب و ہ کسی وقت کی تحدیدکرے ۲؎ توطلاق واقع ہوجائے گی۔اوریہی سفیان ثوری اور مالک بن انس کابھی قول ہے کہ جب اس نے کسی متعین عورت کانام لیا، یا کسی وقت کی تحدید کی یا یوں کہا: اگر میں نے فلاں محلے کی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق ہے۔ تواگراس نے شادی کرلی تواُسے طلاق واقع ہوجائے گی،۶- البتہ ابن مبارک نے اس باب میں شدت سے کام لیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اس پر حرام ہوگی،۷- اوراحمد کہتے ہیں: اگر اس نے شادی کی تو میں اسے یہ حکم نہیں دوں گا کہ وہ اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کرلے،۸- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعودکی حدیث کی روسے منسوبہ عورت سے نکاح کی اجازت دیتا ہوں، اگر اس نے اس سے شادی کرلی، تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی عورت اس پر حرام ہوگی۔ اور غیرمنسوبہ عورت کے سلسلے میں اسحاق بن راہویہ نے وسعت دی ہے،۹- اورعبداللہ بن مبارک سے منقول ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس نے طلاق کی قسم کھائی ہو کہ وہ شادی نہیں کرے گا، پھر اسے سمجھ میں آیا کہ وہ شادی کرلے۔ توکیا اس کے لیے رخصت ہے کہ ان فقہاء کا قول اختیار کرے جنہوں نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے؟توعبداللہ بن مبارک نے کہا: اگروہ اس معاملے میں پڑنے سے پہلے ان کے رخصت کے قول کو درست سمجھتاہوتو اس کے لیے ان کے قول پر عمل درست ہے اور اگر وہ پہلے اس قول سے مطمئن نہ رہاہو، اب آزمایش میں پڑجانے پران کے قول پرعمل کرنا چاہے تومیں اس کے لیے ایسا کرنادرست نہیں سمجھتا۔
تشریح :
۱؎ : بعض نسخوں میں منصوبہ سین سے ہے یعنی منسوبہ، اور یہی صحیح ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جو کسی قبیلے یا شہر کی طرف منسوب ہویامنصوبہ سے مراد متعین عورت ہے۔ مثلاً کوئی خاص عورت جس سے ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے یہ کہے کہ اگر 'میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق' تو نکاح کے بعد اس پر طلاق پڑجائے گی، حالاں کہ فی الوقت یہ طلاق اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔
۲؎ : مثلاً یوں کہے 'إن نكحت اليوم أو غداً'(اگرمیں نے آج نکاح کیا یا کل نکاح کروں گا)۔
۱؎ : بعض نسخوں میں منصوبہ سین سے ہے یعنی منسوبہ، اور یہی صحیح ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جو کسی قبیلے یا شہر کی طرف منسوب ہویامنصوبہ سے مراد متعین عورت ہے۔ مثلاً کوئی خاص عورت جس سے ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے یہ کہے کہ اگر 'میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق' تو نکاح کے بعد اس پر طلاق پڑجائے گی، حالاں کہ فی الوقت یہ طلاق اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔
۲؎ : مثلاً یوں کہے 'إن نكحت اليوم أو غداً'(اگرمیں نے آج نکاح کیا یا کل نکاح کروں گا)۔