جامع الترمذي - حدیث 1180

أَبْوَابُ الطَّلَاقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُطَلَّقَةِ ثَلاَثًا لاَ سُكْنَى لَهَا وَلاَ نَفَقَةَ​ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا سُكْنَى لَكِ وَلَا نَفَقَةَ قَالَ مُغِيرَةُ فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ قَالَ عُمَرُ لَا نَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي أَحَفِظَتْ أَمْ نَسِيَتْ وَكَانَ عُمَرُ يَجْعَلُ لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ وَإِسْمَعِيلُ وَمُجَالِدٌ قَالَ هُشَيْمٌ وَحَدَّثَنَا دَاوُدُ أَيْضًا عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَسَأَلْتُهَا عَنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقَالَتْ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ فَخَاصَمَتْهُ فِي السُّكْنَى وَالنَّفَقَةِ فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً وَفِي حَدِيثِ دَاوُدَ قَالَتْ وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَالشَّعْبِيُّ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَالُوا لَيْسَ لِلْمُطَلَّقَةِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ إِذَا لَمْ يَمْلِكْ زَوْجُهَا الرَّجْعَةَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عُمَرُ وَعَبْدُ اللَّهِ إِنَّ الْمُطَلَّقَةَ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَهَا السُّكْنَى وَلَا نَفَقَةَ لَهَا وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا جَعَلْنَا لَهَا السُّكْنَى بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ قَالُوا هُوَ الْبَذَاءُ أَنْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا وَاعْتَلَّ بِأَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ لَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السُّكْنَى لِمَا كَانَتْ تَبْذُو عَلَى أَهْلِهَا قَالَ الشَّافِعِيُّ وَلَا نَفَقَةَ لَهَا لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِصَّةِ حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1180

کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل تین طلاق پائی عورت کو نہ رہنے کے لیے گھر ملے گا اور نہ کھانے پینے کاخرچہ​ عامربن شراحیل شعبی کہتے ہیں: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ۱؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' تمہیں نہ سکنی (رہائش) ملے گا اور نہ نفقہ(اخراجات) '۔ مغیرہ کہتے ہیں:پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، توانہوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کاکہناہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کوترک نہیں کرسکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یابھول گئی۔عمر ایسی عورت کو سکنٰی اور نفقہ دلاتے تھے۔ دوسری سند سے ہشیم کہتے ہیں کہ ہم سے داود نے بیان کیا شعبی کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس آیااور میں نے ان سے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے متعلق پوچھاتو انہوں نے کہا: ان کے شوہر نے انہیں طلاق بتہ دی توانہوں نے سکنیٰ اور نفقہ کے سلسلے میں مقدمہ کیا۔ نبی اکرمﷺنے انہیں نہ سکنیٰ ہی دلوایا اور نہ نفقہ۔ داود کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہا: اورمجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ابن ام مکتوم کے گھر میں عد ت گزاروں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کایہی قول ہے۔ ان میں حسن بصری، عطاء بن ابی رباح اور شعبی بھی ہیں۔اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ ان لوگوں کاکہناہے کہ مطلقہ کے لیے جب اس کاشوہررجعت کا اختیارنہ رکھے نہ سکنیٰ ہوگا اور نہ نفقہ،۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہیں کہتے ہیں کہ تین طلاق والی عورت کو سکنیٰ اور نفقہ دونوں ملے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں: اسے سکنیٰ ملے گا نفقہ نہیں ملے گا۔ یہ مالک بن انس ، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے،۵- شافعی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے لیے سکنیٰ کا حق کتاب اللہ کی بنیاد پر رکھاہے ، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلم کھلا کوئی بے حیائی کربیٹھیں ۲؎ ، بذاء یہ ہے کہ عورت شوہرکے گھروالوں کے ساتھ بدکلامی کرے۔ نبی اکرم ﷺ کے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو سکنیٰ نہ دینے کی علت بھی یہی ہے کہ وہ گھروالوں سے بدکلامی کرتی تھیں۔ اورفاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے واقعے میں نفقہ نہ دینے کی رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی روسے اسے نفقہ نہیں ملے گا۔
تشریح : ۱؎ : مسند احمد کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ تین طلاقیں تین مختلف وقتوں میں دی گئی تھیں۔ ۲؎ : لیکن قرآن کا یہ حکم مطلقہ رجعیہ کے سلسلے میں ہے، کیوں کہ آیت میں آگے یہ بھی ہے { لاَ تَدْرِي لَعَلَّ اللهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا} (الطلاق:1) (یعنی: تھے نہیں معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی معاملہ پیدا کردے) یعنی ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے شوہر کے دل میں رجعت کا خیال پیدا کردے، تو تین طلاق کی صورت میں رجعت کہاں ہے؟۔ ۱؎ : مسند احمد کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ تین طلاقیں تین مختلف وقتوں میں دی گئی تھیں۔ ۲؎ : لیکن قرآن کا یہ حکم مطلقہ رجعیہ کے سلسلے میں ہے، کیوں کہ آیت میں آگے یہ بھی ہے { لاَ تَدْرِي لَعَلَّ اللهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا} (الطلاق:1) (یعنی: تھے نہیں معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی معاملہ پیدا کردے) یعنی ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے شوہر کے دل میں رجعت کا خیال پیدا کردے، تو تین طلاق کی صورت میں رجعت کہاں ہے؟۔