أَبْوَابُ الطَّلَاقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي طَلاَقِ السُّنَّةِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَقَالَ هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا قَالَ قُلْتُ فَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ قَالَ فَمَهْ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل
مسنون طلاق کا بیان
یونس بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہوتو انہوں نے کہا: کیاتم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھاتوآپ نے انہیں 'حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کرلیں'، یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی؟ کہا: تو اور کیا ہوگی؟ (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی) ،بھلابتاؤ اگرو ہ عاجز ہوجاتا یا دیوانہ ہوجاتا تو واقع ہوتی یانہیں؟! ۱؎ ۔
تشریح :
۱؎ : یعنی جب رجعت سے عاجزہوجانے یا دیوانہ وپاگل ہوجانے کی صورت میں یہ طلاق شمارکی جائے گی تورجعت کے بعد بھی ضرورشمارکی جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہواکہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیو نکہ اگروہ واقع نہ ہو تو آپ کا 'مره فليراجعها'کہنا بے معنی ہوگا، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کاحکم دیاجائے گا، لیکن ظاہریہ کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوتی، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی، ابوداودکی ایک روایت (رقم: ۲۱۸۵) کے الفاظ ہیں 'لم يرها شيئاً'،محتاط یہی ہے کہ طلاق کے ضمن میں حالت حیض میں ظاہریہ کے مسلک کو اختیارکیاجائے تاکہ طلاق کھیل نہ بن جائے۔
۱؎ : یعنی جب رجعت سے عاجزہوجانے یا دیوانہ وپاگل ہوجانے کی صورت میں یہ طلاق شمارکی جائے گی تورجعت کے بعد بھی ضرورشمارکی جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہواکہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیو نکہ اگروہ واقع نہ ہو تو آپ کا 'مره فليراجعها'کہنا بے معنی ہوگا، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کاحکم دیاجائے گا، لیکن ظاہریہ کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوتی، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی، ابوداودکی ایک روایت (رقم: ۲۱۸۵) کے الفاظ ہیں 'لم يرها شيئاً'،محتاط یہی ہے کہ طلاق کے ضمن میں حالت حیض میں ظاہریہ کے مسلک کو اختیارکیاجائے تاکہ طلاق کھیل نہ بن جائے۔