أَبْوَابُ الرَّضَاعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَائِشَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: رضاعت کے احکام ومسائل
بچہ شوہر یا مالک کاہوگا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' بچہ (صاحب فراش) (یعنی شوہر یا مالک) کا ہوگا ۱؎ اورزانی کے لیے پتھر ہوں گے' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱ - ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، عثمان ، عائشہ، ابوامامہ ، عمرو بن خارجہ، عبداللہ بن عمر، براء بن عازب اور زید بن ارقم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تشریح :
۱؎ : فراش سے صاحب فراش یعنی شوہریا مالک مرادہے کیونکہ یہی دونوں عورت کو بسترپرلٹاتے اوراس کے ساتھ سوتے ہیں۔
۲؎ : زانی کے لیے پتھرہے، یعنی ناکامی ونامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ حجر سے مرادیہ ہے کہ اسے رجم کیا جائے گا،یعنی پتھرسے مارمارکرہلاک کیاجائے گا،مگریہ قول کمزوروضعیف ہے کیونکہ رجم صرف شادی شدہ کو کیا جائے گا، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تووہ جس کی بیوی یالونڈی ہوگی اسی کی طرف بچے کی نسبت ہوگی اوروہ اسی کابچہ شمارکیاجائے گا، میراث اورولادت کے دیگراحکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ زناکاارتکاب کرنے کا دعویٰ کرے اوریہ بھی دعویٰ کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہواہے اس کے ساتھ اس بچے کی مشابہت بھی ہواورصاحب فراش کے ساتھ نہ ہو اس ساری صورتحال کے باوجودبچہ کو صاحب فراش کی طرف منسوب کیا جائے گا، اس میں زانی کا کوئی حق نہ ہوگااوراگراس نے اس کی نفی کردی تو پھر بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس بچہ کا نسب ماں کے ساتھ جوڑا جائے گا زانی کے ساتھ نہیں۔
۱؎ : فراش سے صاحب فراش یعنی شوہریا مالک مرادہے کیونکہ یہی دونوں عورت کو بسترپرلٹاتے اوراس کے ساتھ سوتے ہیں۔
۲؎ : زانی کے لیے پتھرہے، یعنی ناکامی ونامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ حجر سے مرادیہ ہے کہ اسے رجم کیا جائے گا،یعنی پتھرسے مارمارکرہلاک کیاجائے گا،مگریہ قول کمزوروضعیف ہے کیونکہ رجم صرف شادی شدہ کو کیا جائے گا، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تووہ جس کی بیوی یالونڈی ہوگی اسی کی طرف بچے کی نسبت ہوگی اوروہ اسی کابچہ شمارکیاجائے گا، میراث اورولادت کے دیگراحکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ زناکاارتکاب کرنے کا دعویٰ کرے اوریہ بھی دعویٰ کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہواہے اس کے ساتھ اس بچے کی مشابہت بھی ہواورصاحب فراش کے ساتھ نہ ہو اس ساری صورتحال کے باوجودبچہ کو صاحب فراش کی طرف منسوب کیا جائے گا، اس میں زانی کا کوئی حق نہ ہوگااوراگراس نے اس کی نفی کردی تو پھر بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس بچہ کا نسب ماں کے ساتھ جوڑا جائے گا زانی کے ساتھ نہیں۔