أَبْوَابُ النِّكَاحِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسْلِمُ وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ وَلَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأَسْلَمْنَ مَعَهُ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَخَيَّرَ أَرْبَعًا مِنْهُنَّ قَالَ أَبُو عِيسَى هَكَذَا رَوَاهُ مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَغَيْرُهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حُدِّثْتُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ أَسْلَمَ وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَإِنَّمَا حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ ثَقِيفٍ طَلَّقَ نِسَاءَهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ لَتُرَاجِعَنَّ نِسَاءَكَ أَوْ لَأَرْجُمَنَّ قَبْرَكَ كَمَا رُجِمَ قَبْرُ أَبِي رِغَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَى وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ غَيْلَانَ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدَ أَصْحَابِنَا مِنْهُمْ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ
کتاب: نکاح کے احکام ومسائل
اگرکوئی مسلمان ہوجائے اور اس کے عقد میں دس بیویاں ہوں تووہ کیاکرے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ۱؎ ثقفی نے اسلام قبول کیا، جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں، وہ سب بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں، تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی چارکومنتخب کر لیں ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اسی طرح اسے معمر نے بسند' الزہری عن سالم بن عبداللہ عن ابن عمر' روایت کیا ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔ اورصحیح وہ ہے جو شعیب بن ابی حمزہ وغیرہ نے بسند الزہری عن محمد بن سوید الثقفی روایت کی ہے کہ غیلان بن سلمہ نے اسلام قبول کیاتوان کے پاس دس بیویاں تھیں۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمرسے روایت کی ہے کہ ثقیف کے ایک شخص نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو عمر نے اس سے کہا: تم اپنی بیویوں سے رجوع کرلو ورنہ میں تمہاری قبر کو پتھر ماروں گا جیسے ابورغال ۳؎ کی قبر کوپتھر مارے گئے تھے۔ ۴- ہمارے اصحاب جن میں شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی شامل ہیں کے نزدیک غیلان بن سلمہ کی حدیث پر عمل ہے ۔
تشریح :
۱؎ : غیلان بن سلمہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے، فتح طائف کے بعدانھوں نے اسلام قبول کیا۔
۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چارسے زائدبیویاں ایک ہی وقت میں رکھناجائزنہیں، لیکن اس حکم سے نبی اکرمﷺکی ذات گرامی مستثنیٰ ہے، آپ کے حرم میں بیک وقت نوبیویاں تھیں، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی اوراس میں بہت سی دینی، سیاسی، مصلحتیں کارفرماتھیں آپ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں۔
وضاحت۳؎ : ابورغال کے بارے میں دومختلف روایتیں ہیں، پہلی روایت یہ ہے کہ یہ طائف کے قبیلہ ثقیف کا یک شخص تھا جس نے ابرہہ کی مکے کی جانب رہبری کی تھی وہ مغمس کے مقام پرمرا اور وہیں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر پتھراؤکرنا عام رسم بن گئی، دوسری روایت ہے کہ ابورغال قوم ثمود کا وہ واحدشخص تھا جو ہلاکت سے بچ گیا تھا، ثمود کی تباہی کے وقت وہ مکیّ میں مقیم تھااور اس جگہ کی حرمت کے باعث محفوظ رہا تاہم مکیّ سے نکلنے کے فوراً بعدمرگیا، رسول اللہ ﷺجب اپنی فوج کے ساتھ الحجرکے مقام سے گزررہے تھے تو آپ نے یہ بات بیان فرمائی تھی، الأغانی کی ایک حکایت میں ابورغال کو طائف کا بادشاہ اوربنوثقیف کا جدامجدبھی بیان کیا گیا ہے، اس کے معاملے میں حافظ ابن قتیبہ اورمسعودی ایسے مصنف ایک اورروایت نقل کرتے ہیں کہ بنوثقیف ہی نے ابورغال کو جو ایک ظالم اوربے انصاف شخص تھا قتل کیاتھا۔
۱؎ : غیلان بن سلمہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے، فتح طائف کے بعدانھوں نے اسلام قبول کیا۔
۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چارسے زائدبیویاں ایک ہی وقت میں رکھناجائزنہیں، لیکن اس حکم سے نبی اکرمﷺکی ذات گرامی مستثنیٰ ہے، آپ کے حرم میں بیک وقت نوبیویاں تھیں، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی اوراس میں بہت سی دینی، سیاسی، مصلحتیں کارفرماتھیں آپ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں۔
وضاحت۳؎ : ابورغال کے بارے میں دومختلف روایتیں ہیں، پہلی روایت یہ ہے کہ یہ طائف کے قبیلہ ثقیف کا یک شخص تھا جس نے ابرہہ کی مکے کی جانب رہبری کی تھی وہ مغمس کے مقام پرمرا اور وہیں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر پتھراؤکرنا عام رسم بن گئی، دوسری روایت ہے کہ ابورغال قوم ثمود کا وہ واحدشخص تھا جو ہلاکت سے بچ گیا تھا، ثمود کی تباہی کے وقت وہ مکیّ میں مقیم تھااور اس جگہ کی حرمت کے باعث محفوظ رہا تاہم مکیّ سے نکلنے کے فوراً بعدمرگیا، رسول اللہ ﷺجب اپنی فوج کے ساتھ الحجرکے مقام سے گزررہے تھے تو آپ نے یہ بات بیان فرمائی تھی، الأغانی کی ایک حکایت میں ابورغال کو طائف کا بادشاہ اوربنوثقیف کا جدامجدبھی بیان کیا گیا ہے، اس کے معاملے میں حافظ ابن قتیبہ اورمسعودی ایسے مصنف ایک اورروایت نقل کرتے ہیں کہ بنوثقیف ہی نے ابورغال کو جو ایک ظالم اوربے انصاف شخص تھا قتل کیاتھا۔