أَبْوَابُ النِّكَاحِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ نِكَاحِ الشِّغَارِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ وَهُوَ الطَّوِيلُ قَالَ حَدَّثَ الْحَسَنُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ وَمَنْ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي رَيْحَانَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَمُعَاوِيَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ
کتاب: نکاح کے احکام ومسائل
نکاح شغار کی حرمت کا بیان
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’ اسلام میں نہ جلب ہے، نہ جنب ۱؎ اور نہ ہی شغار، اور جوکسی کی کوئی چیز اچک لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس ، ابوریحانہ ، ابن عمر، جابر، معاویہ ، ابوہریرہ، اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تشریح :
۱؎ : جلب اور جنب کے دومفہوم ہیں: ایک مفہوم کا تعلق زکاۃ سے ہے اور دوسرے کا گھوڑدوڑ کے مقابلے سے۔ زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃوصول کرنے والا کافی دور قیام کرے اور صاحب زکاۃ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اپنے جانورلے کر آئیں اور زکاۃ ادا کریں ، یہ ممنوع ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو خود ان کی چراگاہوں یا پنگھٹوں پر جاکر زکاۃ کے جانور لینے چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں جنب یہ ہے کہ صاحب زکاۃاپنے اپنے جانور لے کر دور چلے جائیں تا کہ زکاۃوصول کرنے والا ان کے ساتھ دوڑتاپھرے اور پریشان ہو۔ پہلی صورت یعنی جلب میں زکاۃ دینے والوں کو زحمت ہے اوردوسری صورت جنب میں زکاۃوصول کرنے کو ۔ لہذا یہ دونوں درست نہیں۔گھوڑدوڑ میں جلب اورجنب ایک دوسرے کے مترادف ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے اور دوسرا تازہ دم گھوڑا ساتھ رکھے تاکہ درمیان میں جب یہ تھک جائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوجائے اور مقابلہ بہ آسانی جیت سکے۔اس میں چونکہ ناانصافی اور دھوکہ ہے، لہذا اس معنی میں بھی جلب اور جنب درست نہیں ہے ( اور شغار کی تشریح خود مؤلف کے الفاظ میں اگلی حدیث کے ضمن میں آرہی ہے۔)
۱؎ : جلب اور جنب کے دومفہوم ہیں: ایک مفہوم کا تعلق زکاۃ سے ہے اور دوسرے کا گھوڑدوڑ کے مقابلے سے۔ زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃوصول کرنے والا کافی دور قیام کرے اور صاحب زکاۃ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اپنے جانورلے کر آئیں اور زکاۃ ادا کریں ، یہ ممنوع ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو خود ان کی چراگاہوں یا پنگھٹوں پر جاکر زکاۃ کے جانور لینے چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں جنب یہ ہے کہ صاحب زکاۃاپنے اپنے جانور لے کر دور چلے جائیں تا کہ زکاۃوصول کرنے والا ان کے ساتھ دوڑتاپھرے اور پریشان ہو۔ پہلی صورت یعنی جلب میں زکاۃ دینے والوں کو زحمت ہے اوردوسری صورت جنب میں زکاۃوصول کرنے کو ۔ لہذا یہ دونوں درست نہیں۔گھوڑدوڑ میں جلب اورجنب ایک دوسرے کے مترادف ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے اور دوسرا تازہ دم گھوڑا ساتھ رکھے تاکہ درمیان میں جب یہ تھک جائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوجائے اور مقابلہ بہ آسانی جیت سکے۔اس میں چونکہ ناانصافی اور دھوکہ ہے، لہذا اس معنی میں بھی جلب اور جنب درست نہیں ہے ( اور شغار کی تشریح خود مؤلف کے الفاظ میں اگلی حدیث کے ضمن میں آرہی ہے۔)