جامع الترمذي - حدیث 1122

أَبْوَابُ النِّكَاحِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ​ ضعيف حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ أَخُو قَبِيصَةَ بْنِ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّمَا كَانَتْ الْمُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْبَلْدَةَ لَيْسَ لَهُ بِهَا مَعْرِفَةٌ فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يَرَى أَنَّهُ يُقِيمُ فَتَحْفَظُ لَهُ مَتَاعَهُ وَتُصْلِحُ لَهُ شَيْئَهُ حَتَّى إِذَا نَزَلَتْ الْآيَةُ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَى هَذَيْنِ فَهُوَ حَرَامٌ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1122

کتاب: نکاح کے احکام ومسائل نکاحِ متعہ کی حرمت کا بیان​ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں تھا۔ آدمی جب کسی ایسے شہر میں جاتا جہاں اس کی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ اپنے قیام کی مدّت تک کے لیے کسی عورت سے شادی کرلیتا۔ وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی۔اس کی چیزیں درست کرکے رکھتی۔ یہاں تک کہ جب آیت کریمہ {إِلاَّ عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ} (لوگ اپنی شرمگاہوں کو صرف دوہی جگہ کھول سکتے ہیں، ایک اپنی بیویوں پر ، دوسرے اپنی ماتحت لونڈیوں پر ) نازل ہوئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ان دوکے علاوہ باقی تمام شرمگاہیں حرام ہوگئیں۔
تشریح : نوٹ:(اس کے راوی 'موسیٰ بن عبیدہ'ضعیف ہیں ، نیز یہ شاذ بھی ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں: اس کی سند ضعیف ہے، اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے ، فتح الباری ۹/۱۴۸، حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں جس میں ابوجمرہ کہتے ہیں:' میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت دی تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بناپر تھایااس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا : ہاں، ایسا ہی ہے ' بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہوگئے تھے، اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے)۔ نوٹ:(اس کے راوی 'موسیٰ بن عبیدہ'ضعیف ہیں ، نیز یہ شاذ بھی ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں: اس کی سند ضعیف ہے، اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے ، فتح الباری ۹/۱۴۸، حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں جس میں ابوجمرہ کہتے ہیں:' میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت دی تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بناپر تھایااس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا : ہاں، ایسا ہی ہے ' بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہوگئے تھے، اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے)۔