جامع الترمذي - حدیث 1108

أَبْوَابُ النِّكَاحِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِئْمَارِ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاهُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَقَدْ احْتَجَّ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ بِغَيْرِ وَلِيٍّ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا احْتَجُّوا بِهِ لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَهَكَذَا أَفْتَى بِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوَلِيَّ لَا يُزَوِّجُهَا إِلَّا بِرِضَاهَا وَأَمْرِهَا فَإِنْ زَوَّجَهَا فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عَلَى حَدِيثِ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِدَامٍ حَيْثُ زَوَّجَهَا أَبُوهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِكَاحَهُ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1108

کتاب: نکاح کے احکام ومسائل کنواری اور ثیبہ (شوہردیدہ) سے اجازت لینے کا بیان​ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ثیبہ( شوہر دیدہ) عورت اپنے آپ پراپنے ولی سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے۱؎ اور کنواری سے بھی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی جازت اس کی خاموشی ہے ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ اور ثوری نے اسے مالک بن انس سے روایت کیا ہے، ۳-بعض لوگوں نے بغیر ولی کے نکاح کے جوازپر اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔حالاں کہ اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس کی دلیل بنے۔ اس لیے کہ ابن عباس سے کئی اور طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ' ولی کے بغیر نکاح درست نہیں' ۔ نبی اکرمﷺ کے بعد ابن عباس نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں، ۴- اور 'الأیم أحق بنفسہا من ولیہا' کا مطلب اکثر اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ ولی ثیبہ کا نکاح اس کی رضامندی اور اس سے مشورہ کے بغیر نہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو خنساء بنت خدام کی حدیث کی روسے نکاح فسح ہوجائے گا۔ ان کے والد نے ان کی شادی کردی، اوروہ شوہر دیدہ عورتتھیں، انہیں یہ شادی ناپسند ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے ان کے نکاح کو فسخ کر دیا۔
تشریح : ۱؎ : لفظ ' أحق' مشارکت کا متقاضی ہے، گویا غیرکنواری عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدارہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدارہے یہ اوربات ہے کہ ولی کی نسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبرنہیں کیا جاسکتاجب کہ خوداس کی وجہ سے ولی پر جبرکیا جاسکتا ہے، چنانچہ ولی اگرشادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکرہے تو بواسطہ قاضی (حاکم) اس کا نکاح ہوگا، اس توضیح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ حدیث 'لانكاح إلا بولي' کے منافی نہیں ہے۔ ۲؎ : اوراگرمنظورنہ ہوتوکھل کربتادینا چاہئے کہ مجھے یہ رشتہ پسندنہیں ہے تاکہ والدین اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔ ۱؎ : لفظ ' أحق' مشارکت کا متقاضی ہے، گویا غیرکنواری عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدارہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدارہے یہ اوربات ہے کہ ولی کی نسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبرنہیں کیا جاسکتاجب کہ خوداس کی وجہ سے ولی پر جبرکیا جاسکتا ہے، چنانچہ ولی اگرشادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکرہے تو بواسطہ قاضی (حاکم) اس کا نکاح ہوگا، اس توضیح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ حدیث 'لانكاح إلا بولي' کے منافی نہیں ہے۔ ۲؎ : اوراگرمنظورنہ ہوتوکھل کربتادینا چاہئے کہ مجھے یہ رشتہ پسندنہیں ہے تاکہ والدین اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔