جامع الترمذي - حدیث 1057

أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ​ ضعيف حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ خَلِيفَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ قَبْرًا لَيْلًا فَأُسْرِجَ لَهُ سِرَاجٌ فَأَخَذَهُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ وَقَالَ رَحِمَكَ اللَّهُ إِنْ كُنْتَ لَأَوَّاهًا تَلَّاءً لِلْقُرْآنِ وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَكْبَرُ مِنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا وَقَالُوا يُدْخَلُ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ و قَالَ بَعْضُهُمْ يُسَلُّ سَلًّا وَرَخَّصَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1057

کتاب: جنازے کے احکام ومسائل رات میں تدفین کا بیان​ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک قبر میں رات کو داخل ہوئے تو آپ کے لیے ایک چراغ روشن کیاگیا۔ آپ نے میت کوقبلے کی طرف سے لیا۔اور فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے! تم بہت نرم دل رونے والے ، اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن ہے،۲- ا س باب میں جابر اور یزید بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں اور یزیدبن ثابت، زید بن ثابت کے بھائی ہیں، اور ان سے بڑ ے ہیں،۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ میت کو قبر میں قبلے کی طرف سے اتارا جائے گا ۱؎ ،۴- بعض کہتے ہیں: پائتانے کی طرف سے رکھ کر کھینچ لیں گے ۲؎ ، ۵- اوراکثر اہل علم نے رات کودفن کرنے کی اجازت دی ہے ۳؎ ۔
تشریح : ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، قابل استدلال نہیں ہے۔ ۲؎ : یہی مذہب امام شافعی، امام احمد اوراکثرلوگوں کا ہے اوردلیل کے اعتبارسے قوی اورراجح بھی یہی ہے، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبرمیں اتارااورکہا:سنت طریقہ یہی ہے، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمرمیں اختلاط کا شکارہوگئے اورساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اورابواسحاق سبیعی کی جوروایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ معنعن ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔ ۳؎ : حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اورجابرکی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے 'ان النبیﷺ زجرأن یقبرالرجل لیلاً حتی یصلیٰ علیہ '(رواہ مسلم) اس کا جواب دیاگیا ہے کہ یہ زجرصلاۃِجنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیاکفن دینے کے لیے کرتے تھے لہذا اگران چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تورات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں، نبی اکرمﷺکی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیساکہ احمدنے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکروعمرکی تدفین بھی رات میں ہوئی اورفاطمہ رضی اللہ عنہا کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔ نوٹ:(سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں) ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، قابل استدلال نہیں ہے۔ ۲؎ : یہی مذہب امام شافعی، امام احمد اوراکثرلوگوں کا ہے اوردلیل کے اعتبارسے قوی اورراجح بھی یہی ہے، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبرمیں اتارااورکہا:سنت طریقہ یہی ہے، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمرمیں اختلاط کا شکارہوگئے اورساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اورابواسحاق سبیعی کی جوروایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ معنعن ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔ ۳؎ : حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اورجابرکی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے 'ان النبیﷺ زجرأن یقبرالرجل لیلاً حتی یصلیٰ علیہ '(رواہ مسلم) اس کا جواب دیاگیا ہے کہ یہ زجرصلاۃِجنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیاکفن دینے کے لیے کرتے تھے لہذا اگران چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تورات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں، نبی اکرمﷺکی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیساکہ احمدنے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکروعمرکی تدفین بھی رات میں ہوئی اورفاطمہ رضی اللہ عنہا کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔ نوٹ:(سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں)