أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَى قَبْرًا مُنْتَبِذًا فَصَفَّ أَصْحَابَهُ خَلْفَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَقِيلَ لَهُ مَنْ أَخْبَرَكَهُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَبُرَيْدَةَ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ و قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ إِذَا دُفِنَ الْمَيِّتُ وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ صُلِّيَ عَلَى الْقَبْرِ وَرَأَى ابْنُ الْمُبَارَكِ الصَّلَاةَ عَلَى الْقَبْرِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ إِلَى شَهْرٍ وَقَالَا أَكْثَرُ مَا سَمِعْنَا عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَبْرِ أُمِّ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بَعْدَ شَهْرٍ
کتاب: جنازے کے احکام ومسائل
قبر پر صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبردی ہے جس نے نبی اکرمﷺ کو دیکھاکہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھاگیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔تو انہوں نے کہا : ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس، بریدہ، یزید بن ثابت ، ابوہریرہ، عامر بن ربیعہ ، ابوقتادہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبرپر صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی ۱؎ یہ مالک بن انس کا قول ہے،۵ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میت کو دفن کردیا جائے اور اس کی صلاۃِجنازہ نہ پڑھی گئی ہو تواس کی صلاۃِجنازہ قبر پرپڑھی جائے گی،۶- ابن مبارک قبر پر صلاۃ (جنازہ) پڑھنے کے قائل ہیں،۷- احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: قبر پر صلاۃ ایک ماہ تک پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر سنا ہے سعیدبن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے سعد بن عبادہ کی والدہ کی صلاۃِ جنازہ ایک ماہ کے بعد قبر پر پڑھی۔
تشریح :
۱؎ : یہ لوگ باب کی حدیث کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے ' إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم'ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ قبرکو منورکرنے کے لیے تھی اوریہ دوسروں کی صلاۃ میں نہیں پائی جاتی ہے لہذاقبرپر صلاۃِجنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھی آپ نے انھیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائزہے اور اگریہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتادوسروں کے لیے جائزنہ ہوتاتوآپ انھیں ضرور منع فرمادیتے۔
۱؎ : یہ لوگ باب کی حدیث کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے ' إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم'ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ قبرکو منورکرنے کے لیے تھی اوریہ دوسروں کی صلاۃ میں نہیں پائی جاتی ہے لہذاقبرپر صلاۃِجنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھی آپ نے انھیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائزہے اور اگریہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتادوسروں کے لیے جائزنہ ہوتاتوآپ انھیں ضرور منع فرمادیتے۔