أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالَ الشَّافِعِيُّ قَالَ مَالِكٌ لَا يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ
کتاب: جنازے کے احکام ومسائل
مسجد میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء ۱؎ کی صلاۃِجنازہ مسجد میں پڑھی ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، ۳- شافعی کا بیان ہے کہ مالک کہتے ہیں: میت پرصلاۃِجنازہ مسجد میں نہیں پڑھی جائے گی، ۴- شافعی کہتے ہیں: میت پرصلاۃِجنازہ مسجدمیں پڑھی جاسکتی ہے، اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔
تشریح :
۱؎ : بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام: سہل سہیل اورصفوان تھے اوران کی ماں کا نام رعدتھا، بیضاء ان کا وصفی نام ہے، اوران کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔
۲؎ : اس سے مسجد میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتاہے،اگرچہ نبی اکرمﷺ کا معمول مسجدسے باہرپڑھنے کا تھا، یہی جمہورکا مذہب ہے جولوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت 'من صلى على جنازة في المسجد فلا شيء له' ہے جس کی تخریج ابوداودنے کی ہے، جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہوراورمحقق نسخے میں ' فلا شيء له'کی جگہ ' فلا شيء عليه'ہے اس کے علاوہ اس کے اوربھی متعددجوابات دیئے گئے ہیں دیکھئے (تحفۃ الاحوذی ج۲ص ۱۴۶)۔
۱؎ : بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام: سہل سہیل اورصفوان تھے اوران کی ماں کا نام رعدتھا، بیضاء ان کا وصفی نام ہے، اوران کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔
۲؎ : اس سے مسجد میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتاہے،اگرچہ نبی اکرمﷺ کا معمول مسجدسے باہرپڑھنے کا تھا، یہی جمہورکا مذہب ہے جولوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت 'من صلى على جنازة في المسجد فلا شيء له' ہے جس کی تخریج ابوداودنے کی ہے، جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہوراورمحقق نسخے میں ' فلا شيء له'کی جگہ ' فلا شيء عليه'ہے اس کے علاوہ اس کے اوربھی متعددجوابات دیئے گئے ہیں دیکھئے (تحفۃ الاحوذی ج۲ص ۱۴۶)۔