جامع الترمذي - حدیث 1009

أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ​ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ هَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَرَوَى مَعْمَرٌ وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمَالِكٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ كُلُّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ فِي ذَلِكَ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَى و سَمِعْت يَحْيَى بْنَ مُوسَى يَقُولُ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا مُرْسَلٌ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَرَى ابْنَ جُرَيْجٍ أَخَذَهُ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَرَوَى هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ زِيَادٍ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ وَمَنْصُورٍ وَبَكْرٍ وَسُفْيَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ وَإِنَّمَا هُوَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ رَوَى عَنْهُ هَمَّامٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْمَشْيَ أَمَامَهَا أَفْضَلُ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ قَالَ وَحَدِيثُ أَنَسٍ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1009

کتاب: جنازے کے احکام ومسائل جنازے کے آگے چلنے کا بیان​ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمرجنازے کے آگے چلتے تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں :۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اوردیگرکئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے ،اورزہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمرسے روایت کی ہے۔ معمر ، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اوربھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ جنازے کے آگے چلتے تھے۔زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدّثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے،۲- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ،۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میراخیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے،۴- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیادبن سعد ،منصور ، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے ، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اورسالم نے اپنے والدابن عمر سے روایت کی ہے۔ اورسفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے،۵- اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ۱؎ ، ۶- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں ۔
تشریح : ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمرجنازے کے آگے چلتے تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں :۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اوردیگرکئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے ،اورزہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمرسے روایت کی ہے۔ معمر ، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اوربھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ جنازے کے آگے چلتے تھے۔زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدّثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے،۲- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ،۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میراخیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے،۴- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیادبن سعد ،منصور ، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے ، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اورسالم نے اپنے والدابن عمر سے روایت کی ہے۔ اورسفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے،۵- اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ۱؎ ، ۶- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمرجنازے کے آگے چلتے تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں :۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اوردیگرکئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے ،اورزہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمرسے روایت کی ہے۔ معمر ، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اوربھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ جنازے کے آگے چلتے تھے۔زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدّثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے،۲- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ،۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میراخیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے،۴- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیادبن سعد ،منصور ، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے ، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اورسالم نے اپنے والدابن عمر سے روایت کی ہے۔ اورسفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے،۵- اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ۱؎ ، ۶- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں ۔