كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ، وَجَعَلَ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي كَفَّهُ، وَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، وَنَهَى أَنْ يَنْقُشَ أَحَدٌ عَلَيْهِ)) وَهُوَ الَّذِي سَقَطَ مِنْ مُعَيْقِيبٍ فِي بِئْرِ أَرِيسٍ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا ہوا تھا، اس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کندہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کی عبارت کندہ کرنے پر سب کو منع فرمادیا۔ اوریہ وہی انگوٹھی تھی جو معیقیب رضی اللہ عنہ سے بئر اریس میں گر گئی تھی۔ ‘‘
تشریح :
انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف ہو نا چاہیے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگو ٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف فرمایا : صحیح بخاری میں بھی اس طرح کی روایت موجود ہے۔( صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب من جعل فص الخاتم في بطن کفه، حدیث:۵۸۷۶۔) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : علماء کا کہنا ہے کہ اس کے متعلق شریعت نے کوئی حکم صادر نہیں فرمایا۔ لہٰذا انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی اندرونی جانب کرنا بھی درست ہے اور بیرونی جانب بھی، اور سلف سے دونوں طریقوں پر عمل ثابت ہے، ہاں افضل یہی ہے کہ نگینہ اندر کی جانب کیا جائے، کیونکہ اس طرح سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا بھی ہو جاتی ہے اور نگینہ بھی محفوظ رہتا ہے۔ نیز تکبر و فخر اور ریاء بھی دور ہو جاتا ہے۔
ہر ایک کو یہی عبارت کندہ کرنے سے منع فرمادیا۔ یہ اس لیے تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر باقی لوگوں کی مہر سے خلط ملط نہ ہو جائے۔ خلفا ء راشدین رضی الله عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی کا خیال رکھااور کسی نے بھی اپنی انگوٹھی میں ویسا نقش نہیں کیا، اور تافقدان اسی انگوٹھی کو استعمال کرتے رہے۔ یہ وہی انگوٹھی تھی جو مُعیقیب رضی اللہ عنہ سے گری تھی۔ مُعیقیب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے نگران تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس خدمت پر مقرر کیا ہوا تھا، یہ ابوفاطمہ دوسی کے بیٹے تھے، غزوہ بدر میں شامل ہوئے، یہ سیّدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کے غلام تھے انہوں نے آزاد کر دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رہی، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ان کے دور میں بھی مہر لگانے کی خدمت پر یہی معیقیب رضی اللہ عنہ ہی مقرر تھے، اسی طرح سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہا کے ادوار میں بھی یہ خدمت انہیں کے سپرد تھی تا آنکہ یہ انگوٹھی بئر ار یس میں گر گئی۔
تخریج :
صحیح مسلم،کتاب اللباس (۳؍۵۵ برقم ۱۶۵۶)، سنن أبي داود،کتاب الخاتم (۴؍۴۲۱۹)، سنن نسائي ، کتاب الزینة (۸؍ ۵۲۳۱، ۵۳۰۳)، سنن ابن ماجة،کتاب اللباس (۲؍۳۶۳۹) خلق أفعال العباد للإمام البخاري (ص : ۱۳۶)مختصرًا
انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف ہو نا چاہیے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگو ٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف فرمایا : صحیح بخاری میں بھی اس طرح کی روایت موجود ہے۔( صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب من جعل فص الخاتم في بطن کفه، حدیث:۵۸۷۶۔) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : علماء کا کہنا ہے کہ اس کے متعلق شریعت نے کوئی حکم صادر نہیں فرمایا۔ لہٰذا انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی اندرونی جانب کرنا بھی درست ہے اور بیرونی جانب بھی، اور سلف سے دونوں طریقوں پر عمل ثابت ہے، ہاں افضل یہی ہے کہ نگینہ اندر کی جانب کیا جائے، کیونکہ اس طرح سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا بھی ہو جاتی ہے اور نگینہ بھی محفوظ رہتا ہے۔ نیز تکبر و فخر اور ریاء بھی دور ہو جاتا ہے۔
ہر ایک کو یہی عبارت کندہ کرنے سے منع فرمادیا۔ یہ اس لیے تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر باقی لوگوں کی مہر سے خلط ملط نہ ہو جائے۔ خلفا ء راشدین رضی الله عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی کا خیال رکھااور کسی نے بھی اپنی انگوٹھی میں ویسا نقش نہیں کیا، اور تافقدان اسی انگوٹھی کو استعمال کرتے رہے۔ یہ وہی انگوٹھی تھی جو مُعیقیب رضی اللہ عنہ سے گری تھی۔ مُعیقیب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے نگران تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس خدمت پر مقرر کیا ہوا تھا، یہ ابوفاطمہ دوسی کے بیٹے تھے، غزوہ بدر میں شامل ہوئے، یہ سیّدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کے غلام تھے انہوں نے آزاد کر دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رہی، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ان کے دور میں بھی مہر لگانے کی خدمت پر یہی معیقیب رضی اللہ عنہ ہی مقرر تھے، اسی طرح سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہا کے ادوار میں بھی یہ خدمت انہیں کے سپرد تھی تا آنکہ یہ انگوٹھی بئر ار یس میں گر گئی۔