شمائل ترمذی - حدیث 92

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: " اتَّخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَكَانَ فِي يَدِهِ ثُمَّ كَانَ فِي يَدِ أَبِي بَكْرٍ، وَيَدِ عُمَرَ، ثُمَّ كَانَ فِي يَدِ عُثْمَانَ، حَتَّى وَقَعَ فِي بِئْرِ أَرِيسٍ نَقْشُهُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 92

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا بیان ’’سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رہی، پھر وہ سیدنا ابوبکر کے ہاتھ میں، پھر سیدنا عمر کے ہاتھ میں، پھر وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کے ہاتھ میں آگئی یہاں تک کہ اریس کے کنویں میں جا گری، اس کا نقش محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تھا۔ ‘‘
تشریح : انگوٹھی کنویں میں کیسے گری ؟ ابن سعد،( طبقات ابن سعد (۱؍۲؍۱۶۱)۔) نے صحیح بخاری کی سند سے انصاری سے یہ الفاظ زیادہ کیے کہ ’’پھر وہ انگوٹھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس چھ سال تک رہی، یہاں تک کہ بئر اریس میں جاگری۔ ‘‘ سنن نسائى(سنن نسائي ، کتاب الزینة ، باب نزع الخاتم عند دخول الخلاء، حدیث:۵۲۲۰۔)میں ہے کہ ’’یہ مہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی خلافت کے چھ سال تک رہی، جب مقدمے زیادہ ہوگئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ مہر انصار کے ایک آدمی کے حوالے کر دی۔ وہ اس کے پاس رہی اور بطور مہر استعمال ہو تی رہی، تا آنکہ اس سے ایک کنویں میں گر گئی پھر تلاشِ بسیار کے باوجود نہ ملی۔‘‘ سنن ابی داؤد(سنن أبي داود، کتاب الخاتم، باب ما جاء فی اتخاذ الخاتم، حدیث:۴۲۱۵۔) کی روایت میں ہے کہ ’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تو اس کنویں کا سارا پانی نکالا گیا پھر بھی نہ مل سکی۔‘‘ جبکہ صحیح بخاری (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب هل یجعل نقش الخاتم...، حدیث:۵۸۷۹۔) شریف میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک دن بئر اریس پر بیٹھے تھے کہ انگو ٹھی نکالی تو اس سے کھیلنے لگے ( اور ایک روایت میں ہے کہ آپ اس کو ایک ہاتھ سے دوسرے میں بدلنے لگے ) تو وہ گرگئی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تین دن تک وہاں تلاش کرتے رہے، اور آپ نے کنویں کا پانی بھی نکالا، پھر بھی وہ نہ مل سکی۔ ‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’علماء کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی میں کوئی پوشیدہ راز تھا جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی میں تھا، کیونکہ جب وہ گم ہو گئی تو آ پ کی حکومت ختم ہو گئی، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جب انگوٹھی گم ہو گئی توان کی حکومت بھی فتنوں کا شکار ہوگئی، خوارج ان پر غلبہ حاصل کرنے لگے۔ یہ اس فتنے کی ابتدا تھی جو آپ کی شہادت پر جاپہنچا۔ ‘‘(فتح الباری (۷؍۶۶)۔) اس انگوٹھی کی تلاش میں اس لیے مبالغہ کیا گیا کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار میں سے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو استعمال کیا، اور اس کو بطور مہر بھی رکھا، تو ایسی چیز کی قدر وقیمت اہم ہو جاتی ہے۔ بَا بَ مَا جَاءَ فِيْ ذِکْرِ خَاتَمِ رَسُوْلِ الله ِ صَلَّی اللّٰه ُ عَلَیْه وَسلَّمَ مکمل ہوا۔ والحمد للّٰه رب العالمین علی ذٰلك۔
تخریج : صحیح بخاری کتاب اللباس (۱۰؍۵۸۷۳)صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینة (۳؍۵۴ برقم ۱۶۵۶) سنن أبي داود،کتاب الخاتم (۴؍۴۲۱۸) سنن نسائي ،کتاب الزینة (۸؍۵۳۰۸) مسند أحمد بن حنبل (۳۷۳۴) مُخْتَصِرًا وَلَیْسَ فِیْهِ ذِکْرُ الْبِئْرِ۔ انگوٹھی کنویں میں کیسے گری ؟ ابن سعد،( طبقات ابن سعد (۱؍۲؍۱۶۱)۔) نے صحیح بخاری کی سند سے انصاری سے یہ الفاظ زیادہ کیے کہ ’’پھر وہ انگوٹھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس چھ سال تک رہی، یہاں تک کہ بئر اریس میں جاگری۔ ‘‘ سنن نسائى(سنن نسائي ، کتاب الزینة ، باب نزع الخاتم عند دخول الخلاء، حدیث:۵۲۲۰۔)میں ہے کہ ’’یہ مہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی خلافت کے چھ سال تک رہی، جب مقدمے زیادہ ہوگئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ مہر انصار کے ایک آدمی کے حوالے کر دی۔ وہ اس کے پاس رہی اور بطور مہر استعمال ہو تی رہی، تا آنکہ اس سے ایک کنویں میں گر گئی پھر تلاشِ بسیار کے باوجود نہ ملی۔‘‘ سنن ابی داؤد(سنن أبي داود، کتاب الخاتم، باب ما جاء فی اتخاذ الخاتم، حدیث:۴۲۱۵۔) کی روایت میں ہے کہ ’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تو اس کنویں کا سارا پانی نکالا گیا پھر بھی نہ مل سکی۔‘‘ جبکہ صحیح بخاری (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب هل یجعل نقش الخاتم...، حدیث:۵۸۷۹۔) شریف میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک دن بئر اریس پر بیٹھے تھے کہ انگو ٹھی نکالی تو اس سے کھیلنے لگے ( اور ایک روایت میں ہے کہ آپ اس کو ایک ہاتھ سے دوسرے میں بدلنے لگے ) تو وہ گرگئی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تین دن تک وہاں تلاش کرتے رہے، اور آپ نے کنویں کا پانی بھی نکالا، پھر بھی وہ نہ مل سکی۔ ‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’علماء کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی میں کوئی پوشیدہ راز تھا جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی میں تھا، کیونکہ جب وہ گم ہو گئی تو آ پ کی حکومت ختم ہو گئی، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جب انگوٹھی گم ہو گئی توان کی حکومت بھی فتنوں کا شکار ہوگئی، خوارج ان پر غلبہ حاصل کرنے لگے۔ یہ اس فتنے کی ابتدا تھی جو آپ کی شہادت پر جاپہنچا۔ ‘‘(فتح الباری (۷؍۶۶)۔) اس انگوٹھی کی تلاش میں اس لیے مبالغہ کیا گیا کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار میں سے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو استعمال کیا، اور اس کو بطور مہر بھی رکھا، تو ایسی چیز کی قدر وقیمت اہم ہو جاتی ہے۔ بَا بَ مَا جَاءَ فِيْ ذِکْرِ خَاتَمِ رَسُوْلِ الله ِ صَلَّی اللّٰه ُ عَلَیْه وَسلَّمَ مکمل ہوا۔ والحمد للّٰه رب العالمین علی ذٰلك۔