شمائل ترمذی - حدیث 90

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ أَبُو عَمْرٍو، أَنْبَأَ نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى كِسْرَى وَقَيْصَرَ وَالنَّجَاشِيِّ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُمْ لَا يَقْبَلُونَ كِتَابًا إِلَّا بِخَاتَمٍ فَصَاغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا حَلْقَتُهُ فِضَّةٌ، وَنُقِشَ فِيهِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 90

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا بیان ’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری (شاہ فارس) قیصر (شاہ روم) او رنجاشی (شاہ حبشہ) کی طرف خطوط تحریر فرمائے تو (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے) کہا گیا کہ یقیناً وہ لوگ بلا مہر خط قبول نہیں کرتے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی بنوالی جس کا حلقہ چاندی کا تھا اور اس پر مُحَمَّدٌ رَسُوْ لُ الله ِ نقش تھا۔‘‘
تشریح : ایک دوسری روایت میں اس طرح الفاظ ہیں : ’’وَکاَنَ نَقْشُ الْخَاتَمِ ثَلَاثَةَ أَسْطُرٍ، مُحَمَّدٌ سَطْرٌ، وَرَسُوْلٌ سَطْرٌ، وَاللّٰهُ سَطْرٌ(صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب هل یجعل نقش الخاتم ثلاثة أسطر، حدیث:۵۸۷۸۔)یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نقش تین سطروں میں تھا ایک سطرمیں ’’محمد ‘‘ دوسری سطر میں ’’رسول ‘‘ اور تیسری سطر میں لفظ ’ ’ اللہ ‘‘ تھا۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ اس پر مزید کچھ بھی نقش نہ تھا مگر ابوالشیخ نے اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک حدیث بیان کی ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی پر ’’لَااِلٰهَ إِلَّا الله ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ (أخلاق النبي صلى الله علیه وسلم لأبي الشیخ (ص:۱۴۶)۔)لکھا ہوا تھا، لیکن اس کی سند میں عرعرۃ راوی ہیں جنہیں امام ابن المدینی نے ضعیف کہا ہے اس لیے ان کی زیادت شاذہے۔ روایت کے الفاظ سے بظاہر تو یہی ثابت ہو تا ہے کہ یہ نقش اسی ترتیب سے تھا مگر دراصل اس کی کتابت عام انداز کے خلاف تھی کیونکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ حروف منقوشہ الٹے کندہ کئیے جائیں تا کہ مہر سید ھی آئے، بعض شیوخ اور عامہ الناس بھی یہ کہتے ہیں کہ اس مہر کی کتابت نیچے سے او پر کو تھی، یعنی لفظ اللہ سب سے اوپر والی سطر میں اور لفظ محمد سب سے نیچے والی سطر میں تھا، لیکن اس کی تصریح احادیث سے ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اسماعیل کی روایت اس کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ہے کہ پہلی سطر میں لفظ محمد، دوسری میں لفظ رسول، ا ور تیسری سطر میں لفظ اللہ تھا۔ گویا نقش مبارک اس شکل کا تھا۔ مختلف بادشاہوں کو مکتوب گرامی مہر بلب بھیجے گئے: ۱۲-۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ الْجَھْضَمِيُّ أَبُو عَمْرٍو، أَنْبَأَ نُوْحُ بْنُ قَیْسٍ، عَنْ خَالِدٍ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ قَتَادَۃَ... عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم کَتَبَ إِلَی کِسْرَی وَقَیْصَرَ وَالنَّجَاشِيِّ، فَقِیْلَ لَہُ: إِنَّھُمْ لَا یَقْبَلُوْنَ کِتَابًا إِلَّا بِخَاتَمٍ، فَصَاغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم خَاتَمًا حَلْقَتُہُ فِضَّۃٌ وَنُقِشَ فِیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ ’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری (شاہ فارس) قیصر (شاہ روم) او رنجاشی (شاہ حبشہ) کی طرف خطوط تحریر فرمائے تو (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے) کہا گیا کہ یقیناً وہ لوگ بلا مہر خط قبول نہیں کرتے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی بنوالی جس کا حلقہ چاندی کا تھا اور اس پر مُحَمَّدٌ رَسُوْ لُ الله ِ نقش تھا۔‘‘ تخریج: صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینة (۳؍۵۸، برقم۱۶۵۷) مزید تخریج گذشتہ حدیث کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔ تشریح :...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے اکثر شاہان کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے، جن کے جواب میں بعض مسلمان ہوئے، بعض اپنے کفر پر ڈٹے رہے، مگر اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ کفر والوں کی توجہ دینِ اسلام کی طرف مبذول ہوگئی اور ان کے نزدیک بھی اسلام کا تعارف ہو گیا۔ ذیل میں ان خطوط کی کچھ تفصیل درج ہے۔ نام بادشاہ اصلی نام کس صحابی کو بھیجا (۱) نجاشی، شاہِ حبشہ اصحمہ سیدنا عمر وبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ (۲) مقوقس، عزیزِ مصر جریح بن فتی سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ (۳) کسرٰی، شاہِ فارس خسرو پرویز سیدنا عبداللہ حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ (۴) قیصر، شاہِ روم ہر قل سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ (۵) حاکمِ بحرین منذر بن ساوی سیدنا علاء بن خضرمی رضی اللہ عنہ (۶) حاکمِ عامہ مبوزہ بن علی سیدنا سلیط بن عمر وعامری رضی اللہ عنہ (۷) حاکمِ دمشق حارث بن ابی شمر غسانی سیدنا شجاع بن وھب رضی اللہ عنہ (۸) شاہِ یمامہ جیفر اورا س کے بھائی سیدنا عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط شاہان ممالک کو بھیجے، بعض علماء نے ان کو مستقل تصانیف میں جمع کیا ہے حدیث الباب میں تین مکتوبات کا ذکر ہے جن کا تفصیلی تذکرہ مناسب معلوم ہو تا ہے۔ مکتوبِ گرامی کسری پرویز کے نام آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری (فارس کے ہر بادشاہ کو کسری کہاجاتا تھا اس کسری کا نام خسروپرویز تھا جو نوشیرواں کا پوتا تھا ) کے نام جو خط بھیجا وہ سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجا خط کا مضمون حسب ذیل تھا۔ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَانِ الرَّ حِیْم۔ مِنْ مُحَمدٍَّ رَسُوْلِ الله ِ إِلیٰ کِسرٰی عَظِیْم ِ فَارِسَ سَلَامٌ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰی، وَأَمَنَ بِالله ِ وَرَسُوْلِهِ، أَدْعُوْكَ بِدَ عَایَةِ اللهِ، فَإِنِیّ أَنَا رَسُوْ لُ اللهِ إِلی النَّاسِ کَافَّةً لِیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّاوَیَحِقَّ الْقُوْ لُ عَلیٰ الْکَافِرِیْنَ أَسْلِمْ تَسْلَمْ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَإِنَّ عَلَیْكَِ إِثْمَ الْمَجُوسِ۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف سے کسرٰی کے نام، جو فارس کا بڑا اور سردار ہے سلامتی اس شخص کے لیے ہے جو ہدایت اختیار کرے اور اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے، اور اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کی پکار کی دعوت دیتا ہوں اس لیے کہ میں وہ رسول ہوں جو تمام لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ ان لوگوں کو ڈراؤں جن کے دل زندہ ہیں (یعنی ان میں کچھ عقل وسمجھ ہے کہ بے عقل آدمی بمنزلہ مردہ ہے )ا ور تا کہ اللہ تعالیٰ کی حجت کا فروں پر پوری ہو جائے۔ تو اسلام لے آ۔تا کہ سلامتی سے رہے ورنہ تیرے اتباع مجوس کا وبال بھی تجھ پر ہوگا۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کو دے کر ارشاد فرمایا کہ کسری کا گورنر جو بحرین میں رہتا ہے اس کے ذریعے سے اس کو کسرٰی تک پہنچادیں۔ چنانچہ یہ اسی ذریعہ سے و ہاں تک پہنچے۔ کسری بد بخت نے یہ مکتوب گرامی سنتے ہی چاک کر دیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بد دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا اور اس کے بیٹے شیر ویہ نے اس کو بری طرح قتل کر دیا جس کا قصہّ کتب توارایخ میں مذکورہے۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب کتاب النبي صلى الله علیه وسلم إلی کسریٰ وقیصر، حدیث:۴۴۲۴۔ عیون الاثر لابن سید الناس (۲؍۳۴۷)۔) مکتوب مبارک شاہ روم قیصر کے نام : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مکتوب جس کا حدیث الباب میں تذکرہ ہے قیصر کے نام بھیجا، جو روم کا بادشاہ تھا اس کا نام ہر قل تھا۔ سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ یہ خط لے کر اس کے پاس گئے، قیصر مسلمان تو نہ ہوا لیکن اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو نہایت اکرام واحترام سے رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا تو فرمایا : ’’کسری نے اپنے ملک کے ٹکڑے کرلیے اور قیصر نے اپنے ملک کی حفاظت کی۔‘‘ مکتوب گرامی کا متن حسب ذیل ہے۔ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مّنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللّٰه ِ وَرَسُوْ لِهِ إِلیٰ هِرَقْلَ عَظِیْمِ الرُّوْمِ، سَلَامٌ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰی أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّیْ أَدْعُوْكَ بِدَ عَایَةِ اِلْاِ سْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، یُوْ تِكَ اللّٰهُ أَجْرَكَ مَرَّ تَیْنِ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَإِنَّ عَلَیْكَ إِ ثْمَ الْإِرِْیْسِیِّیْنَ وَیَاأَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالُوْا إِلٰی کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللّٰه ولا نُشْرِكَ بِهِ شَیْئًا وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْ بَابًا مِنْ دُوْنِ الله ِ فَإِ نْ تَوَ لَّوْا فَقُوْ لُوْا اشْهَدُوْا بِأَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔‘‘ بسم الله الرحمن الرحیم۔ یہ خط محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف سے، جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ہرقل کی طرف، جو روم کا بڑا اور سردار ہے۔ سلامتی اس شخص کے لیے ہے جو ہدایت اختیار کرے۔ حمد وصلوٰۃ کے بعد میں تجھ کو اسلام کے کلمہ کی طرف دعوت دیتا ہوں، تو اسلام لے آ، تا کہ سلامتی سے رہے (اگر ایسا کرے گا تو )اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر عطا فرمائیں گے، اور اگر تو روگر دانی کرے گا تو تیرے ماتحت زراعت پیشہ لوگوں کا وبال بھی تجھ پر ہو گا۔ اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے اور وہ توحید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں اورا للہ تعالیٰ کا کسی کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی آپس میں ایک دوسرے کو رب نہ بنائے، اور اگر اس کے بعد بھی اہل کتاب روگر دانی کریں تو مسلمانو ! تم ان سے کہہ دو کہ تم اس کے گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ جب یہ خط لے کر گئے اور قیصر کے سامنے یہ خط پڑھا گیا تو اس کا بھتیجا بھی وہاں موجود تھا وہ نہایت غصہ میں اٹھا اور کہنے لگا : یہ خط مجھے دو۔ قیصر نے کہا: تو کیا کرے گا ؟ اس نے کہا : یہ خط پڑھنے کے لائق نہیں ہے اس میں آ پ کے نام سے ابتداء نہیں کی گئی، اور آپ کو بادشاہ کی بجائے روم کا بڑا آدمی لکھا گیا ہے۔ قیصر نے کہا: تو بڑا بے وقوف ہے، یہ چاہتا ہے کہ میں ایسے شخص کے خط کو پھینک دوں جس کے پاس ناموس اکبر (جبرئیل امین علیہ السلام)آتے ہوں، اگر وہ نبی ہیں تو ان کو ایسے ہی لکھنا چاہیے، اس کے بعد قیصر نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو بڑے اعزاز واکرام سے ٹھہرایا۔ قیصر اس وقت سفر میں تھا، واپسی پر اس نے اپنے ارکانِ سلطنت اور امراء و وزراء کو بلوایا اور کہا : میں تم کو ایسی بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں جو سراسر خیر وفلاح ہے اور ہمیشہ کے لیے تمھارے ملک کی بقا کا ذریعہ ہے۔ بے شک یہ نبی ہیں، ان کا اتباع کرلو اور ان کی بیعت اختیار کرلو، اس نے ایک بند مکان میں جس کے سب دروازے بند کر ائے گئے تھے اس مضمون پر ایک لمبی تقریر کی۔ وہ لوگ اس قدر متوحش ہوئے کہ ایک دم شوروشغب پیدا ہو گیا لوگ ادھر اُدھر بھاگنے لگے مگر سب دروازے بند تھے، دیر تک ہنگامہ برپا رہا اس کے بعد اس نے سب کو چپ کر وایا، اور تقریر کی کہ درحقیقت ایک مدعی نبوت پیدا ہو ا ہے۔ میں تم لوگوں کا امتحان لینا چاہتا تھا کہ تم اپنے دین میں کس قدر پختہ ہو؟ اب مجھے اندازہ ہو گیا کہ تم بہت پکے ہو۔ وہ لوگ اس کے سامنے اپنی عادت کے موافق سجدے میں گر گئے اس کے بعد اس نے ان کو شاباشی وغیرہ دے کر رخصت کر دیا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس نے خط کو پڑھ کر چوما، سر پر رکھا اور ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں بڑے پوپ کو طلب کیا۔ اس سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا : بے شک یہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں جن کی بشارتیں ہماری کتاب میں موجود ہیں۔ قیصر نے کہا مجھے بھی یقین ہے مگر اشکال یہ ہے کہ اگر میں مسلما ن ہو جاؤں تو یہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے، اور میری سلطنت جاتی رہے گی۔ قیصر کا تجارتی قافلہ سے مکالمہ : قیصر کو جس وقت یہ مکتوب گر امی ملا، وہ اس وقت اپنی مذہبی ضرورت کے لیے بیت المقدس آیا ہوا تھا۔ وہاں مکہ مکرمہ کا ایک بڑا تجارتی قافلہ بھی پہنچا ہوا تھا اس نے تحقیق حال کے لیے اس قافلے کے سرداروں کو طلب کیا اس کا مفصل قصہ صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی زبانی موجود ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان او ر اہل مکہ کے درمیان چند سال کے لیے ایک عہد نامہ تیار ہوا تھا۔ میں ملک شام میں گیا ہوا تھا کہ اس اثناء میں ہر قل کے نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گرامی نامہ پہنچا۔ تو اس نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی ایسا ہے جو مدعی نبوت کے شہر کا ہو ؟ ان لوگوں نے کہا: ہاں ! کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں قریش کے چند لوگوں کے ہمراہ اس کے پاس گیا اس نے ہم سب کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ اس شخص کے ساتھ جو نبوت کا دعویدار ہے تم میں سب سے زیادہ قرابت داری کس کی ہے ؟ میں نے کہا : میں سب سے زیادہ اس کا قرابت دار ہوں۔ اس نے مجھے اپنے قریب بلایا، اور باقی ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھایا۔ اور ان سے کہا کہ میں اس سے چند سوالات کرتا ہوں، تم سب غور سے سنتے رہنا اور جس بات کا جواب جھوٹ بتائے تو تم اس کو ظاہر کر دیتا۔ ابوسفیان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو تے تھے اور مسلمانوں کے سخت ترین دشمن تھے۔ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! اگر مجھے اپنی بدنامی کا اندیشہ نہ ہو تا کہ لوگ بعد میں مجھے جھوٹ سے بد نام کریں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا، مگر خوفِ بد نامی نے مجھے سچ بولنے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان کے ذریعے مجھ سے حسب ذیل سوالات کیے۔ ابوسفیان سے سوالات اور ان کے جوابات : سوال: یہ مدعی نبوت نسب کے اعتبار سے تم میں کیسے شخص سمجھے جاتے ہیں ؟ جواب: یہ ہم میں بڑے عالی نسب ہیں۔ سوال: ا ن کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے ؟ جواب: کوئی نہیں ہوا۔ سوال : نبوت کے دعوے سے قبل تم کبھی ان کو جھوٹ بولنے کا الزام دیتے تھے ؟ جواب: کبھی نہیں ! بلکہ وہ ہم میں صادق وامین سمجھے جاتے تھے۔ سوال: ان کے متبعین قوم کے شرفاء ہیں یا معمولی درجے کے آدمی ؟ جواب: معمولی درجے کے آ دمی۔ سوال: ان کے متبعین کا گروہ بڑھتا جارہا ہے یا کم ہو تا جاتا ہے ؟ جواب: بڑھتا جاتا ہے۔ سوال: ان کے دین میں داخل ہو نے کے بعد اس سے بد دل ہو کر کوئی دین سے پھر بھی جاتے ہیں یا نہیں ؟ جواب: نہیں۔ سوال: تمھاری ان کے ساتھ کبھی جنگ ہوئی یا نہیں ؟ جواب: ہوئی ہے۔ سوال: جنگ کا پانسا کیسا رہا ؟ جواب: کبھی وہ غالب ہو جاتے ہیں کبھی ہم غالب ہو جاتے ہیں۔ سوال: کبھی انھوں نے بد عہدی کی ہے ؟ جواب: نہیں۔ لیکن آج کل ہمار ا اور ان کا ایک معاہدہ ہے، نہ معلوم وہ اس کو پورا کریں گے یا نہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اس کلمہ کے سوا کسی چیز میں بھی مجھے موقع نہ ملا کہ کچھ اپنی طرف سے ملا دوں۔ سوال: اس سے قبل کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ؟ جواب: نہیں۔ ابوسفیان کے جوابات پر ہر قل کا تبصرہ ٭ اس کے بعد ہر قل نے ازسرِ نو سلسلہ شروع کیا اور کہا کہ میں نے تم سے ان کے نسب کے بارہ میں سوال کیا تم نے عالی نسب بتایا۔ انبیاء اپنی قوم کے شریف خاندان ہی میں پیدا ہوتے ہے۔ ٭ میں نے پوچھا کہ ان کے بڑوں میں کوئی شخص بادشاہ ہوا ہے؟ تم نے کہا نہیں۔ مجھے یہ خیال ہوا تھا کہ شاید اس بہانے سے وہ اس بادشاہت کو واپس لینا چاہتے ہیں۔ ٭ میں نے ان کے متبعین کے بارے میں سوال کیا کہ شرفاء ہیں یا کمزور لوگ ؟ تم نے جواب دیا کہ کمزور لوگ ہیں۔ تو ہمیشہ سے انبیاء کا اتباع کرنے والے ابتداء ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔ ٭ میں نے سوال کیا تھا کہ اس دعویٰ سے قبل تم اس پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے یا نہیں ؟ تو تم نے انکار کر دیا میں نے یہ سمجھا تھا کہ شاید لوگوں کے متعلق جھوٹ بولتے بولتے انہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہو۔ ٭ میں نے سوال کیا تھا کہ اس کے دین میں داخل ہو کر اس سے ناراض ہو کر کوئی مرتد ہوا ہے؟ تم نے اس سے انکار کیا۔ ایمان کی یہی خاصیت ہے جس کی بشاشت دلوں میں گھس جائے، پھر نکلتی نہیں۔ ٭ میں نے پوچھا کہ وہ لوگ بڑھتے رہتے ہیں یا کم ہوئے ہیں ؟ تم نے کہا کہ بڑھتے جاتے ہیں ایمان کا خاصہ یہی ہے کہ دین کی تکمیل ہو جائے۔ ٭ میں نے ان سے جنگ کے بارے میں سوال کیا تھا تم نے کہا کہ کبھی وہ غالب آگئے کبھی ہم۔ انبیاء کے ساتھ ہمیشہ یہی برتاؤ رہا ہے لیکن بہتر انجام انہی کے لیے ہو تا ہے۔ ٭ میں نے بد عہدی کے متعلق سوال کیا تم نے انکار کیا۔ یہی انبیاء کی صفت ہو تی ہے کہ وہ بد عہد نہیں ہوتے۔ ٭ میں نے پوچھا تھا کہ ان سے پہلے کسی نے نبوت کا دعوی کیا؟ تم نے اس سے انکار کیا۔ میں نے خیال کیا تھا کہ اگر کسی نے ان سے قبل یہ دعوی کیا ہو گا تو میں سمجھوں گا کہ یہ اسی قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جاچکا ہے۔ بے شک وہ نبی ہیں : اس کے بعد ہر قل نے ان لوگوں سے پوچھا کہ ان کی تعلیمات کیا ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا : نماز پڑھنے کا، صدقہ کرنے کا، صلہ رحمی کا، عصمت و پاکدامنی کا حکم کرتے ہیں، ہر قل نے کہا: اگر یہ سب امور سچ ہیں جو تم نے بیان کیے تو وہ بے شک نبی ہیں۔ مجھے یہ تو یقین تھا کہ وہ عنقریب پیدا ہو نے والے ہیں مگر یہ یقین نہیں تھا کہ تم میں سے ہوں گے، اگر مجھے یقین ہو تا کہ میں ان تک پہنچ سکتا ہوں تو ان سے ملنے کی خواہش کرتا، اور میں ان کے پاس ہو تا تو ان کے پاؤں دھو تا۔ بلاشبہ ان کی سلطنت اس جگہ تک پہنچنے والی ہے جہاں میں ہوں۔ (صحیح بخاري، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول الله صلى الله علیه وسلم، حدیث:۷۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب کتب النبي صلى الله علیه وسلم إلی هرقل، حدیث:۱۷۷۳۔) مکتوب گرامی شاہ حبشہ نجاشی کے نام : تیسرا خط جس کا حدیث الباب میں تذکرہ ہے وہ نجاشی کے نام تھا۔ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہو تا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو نجاشی تھا اس کا نام اصحمہ تھا۔ یہ مسلمان ہو گئے تھے۔ ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی سلطنت حبشہ میں اس وقت ہجرت کی جبکہ یہ مسلمان بھی نہ ہوئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر وبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان کے پاس مکتوبِ گر امی بھیجا جس کا متن حسب ذیل ہے۔ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَانِِ الرَّحِیْمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰهِ إِلٰی النَّجَاشِيْ مَلِكِ الْحَبَشَةِ سَلِمٌ اَنْتَ، فَإِنِّیْ أَحْمَدُ إِلَیْكَ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عِیْسٰی بْنَ مَرْیَمَ رُوْحُ اللّٰهِ وَکَلِمَتُهُ، أَلْقَاهَا إِلٰی مَرْیَمَ الْبَتُوْلِ الطَّیِّبَةِ الْحَصِیْنَهِ فَحَمَلَتْ بِهِ، فَخَلَقَهُ مِنْ رُوْحِهِ، وَنَفَخَهٗ کَمَا خَلَقَ آدَمَ بِیَدِهِ، وَإِنِّیْ أَدْعُوْكَ إِلٰی اللّٰهَ وَحْدَہُ لَا شَرِیْكَ لَهُ، وَالْمَوَالَاةُ عَلٰی طَاعَتِهِ، وَأَنْ تَتَّبِعَنِيْ وَتُوْمِنَ بِالَّذِيْ جَائَنِيْ، فَإِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ، وَإِنِّيْ أَدْعُوْكَ وَجُنُوْدَكَ إِلٰی اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ۔ وَقَدْ بَلَّغْتُ وَنَصَحْتُ فَاقْبَلُوْا نَصِیْحَتِيْ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰی۔‘‘ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف سے، حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے نام۔ تم صلح پسند ہو۔ میں اس اللہ تعالیٰ کی تعریف تمھارے پاس پہنچاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، سب عیبوں سے پاک ہے، ہر قسم کے نقص سے پاک ہے، امن دینے والا نگہبان ہے، اور میں اس بات کا قرار کرتا ہوں کہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ایک روح اور اس کے وہ کلمہ تھے جس کو اللہ تعالیٰ نے پاک وصاف کنواری مریم کی طرف بھیجا تھا، پس وہ حاملہ بن گئیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی ایک خاص روح سے پیدا کیا اور ان میں جان ڈال دی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو (بغیر باپ کے )اپنے دست مبارک سے پیدا فرمایا، میں تمھیں اسی وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ کی بندگی کی دعوت دیتا ہوں، اور اس کی اطاعت پر تعاون کی طرف بلاتا ہوں، اورا س بات کی طرف بلاتا ہوں کہ تم میرا اتباع کرو اور جو شریعت میں لے کر آیا ہوں اس پر ایمان لاؤ۔ بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف تم کو اور تمھارے سارے لشکروں کو بلاتا ہوں، میں حق بات تم تک پہنچاچکا، اور نصیحت کر چکا ہوں، تم میری نصیحت کو قبول کر لو، اور سلامتی اس شخص پر جو ہدایت کا اتباع کرے۔‘‘( عیون الأثر (۲؍۳۴۹)۔ طبقات ابن سعد (۱؍۲۸۵۔۲۵۹)۔) علماء حدیث کی ایک جماعت کی تحقیق یہ ہے کہ یہ نجاشی پہلے سے مسلمان ہو چکے تھے، اس مکتوبِ گرامی پر انہوں نے اپنے اسلام کا برملا اظہار کیا اور جواباً ایک عریضہ لکھا جس میں اپنے ایمان کا اقرار کیا اور یہ بھی اقرار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ لکھا وہ حرف بہ حرف سچ اور صحیح ہے، اور اپنے بیٹے کے ہاتھ ساٹھ افراد سمیت یہ عریضہ خدمتِ اقدس میں بھیجا۔ مگر افسوس کہ راستہ میں وہ کشتی سمندر میں غرق ہو گئی اور ان میں سے کوئی بھی خدمتِ اقدس میں نہ پہنچ سکا۔ خود اس نجاشی کا انتقال بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی ہو گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ (صحیح بخاري، کتاب مناقب الأنصار، باب موت النجاشي، حدیث:۳۸۷۷۔۳۸۷۹۔)
تخریج : صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینة (۳؍۵۸، برقم۱۶۵۷) مزید تخریج گذشتہ حدیث کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح الفاظ ہیں : ’’وَکاَنَ نَقْشُ الْخَاتَمِ ثَلَاثَةَ أَسْطُرٍ، مُحَمَّدٌ سَطْرٌ، وَرَسُوْلٌ سَطْرٌ، وَاللّٰهُ سَطْرٌ(صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب هل یجعل نقش الخاتم ثلاثة أسطر، حدیث:۵۸۷۸۔)یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نقش تین سطروں میں تھا ایک سطرمیں ’’محمد ‘‘ دوسری سطر میں ’’رسول ‘‘ اور تیسری سطر میں لفظ ’ ’ اللہ ‘‘ تھا۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ اس پر مزید کچھ بھی نقش نہ تھا مگر ابوالشیخ نے اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک حدیث بیان کی ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی پر ’’لَااِلٰهَ إِلَّا الله ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ (أخلاق النبي صلى الله علیه وسلم لأبي الشیخ (ص:۱۴۶)۔)لکھا ہوا تھا، لیکن اس کی سند میں عرعرۃ راوی ہیں جنہیں امام ابن المدینی نے ضعیف کہا ہے اس لیے ان کی زیادت شاذہے۔ روایت کے الفاظ سے بظاہر تو یہی ثابت ہو تا ہے کہ یہ نقش اسی ترتیب سے تھا مگر دراصل اس کی کتابت عام انداز کے خلاف تھی کیونکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ حروف منقوشہ الٹے کندہ کئیے جائیں تا کہ مہر سید ھی آئے، بعض شیوخ اور عامہ الناس بھی یہ کہتے ہیں کہ اس مہر کی کتابت نیچے سے او پر کو تھی، یعنی لفظ اللہ سب سے اوپر والی سطر میں اور لفظ محمد سب سے نیچے والی سطر میں تھا، لیکن اس کی تصریح احادیث سے ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اسماعیل کی روایت اس کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ہے کہ پہلی سطر میں لفظ محمد، دوسری میں لفظ رسول، ا ور تیسری سطر میں لفظ اللہ تھا۔ گویا نقش مبارک اس شکل کا تھا۔ مختلف بادشاہوں کو مکتوب گرامی مہر بلب بھیجے گئے: ۱۲-۶: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ الْجَھْضَمِيُّ أَبُو عَمْرٍو، أَنْبَأَ نُوْحُ بْنُ قَیْسٍ، عَنْ خَالِدٍ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ قَتَادَۃَ... عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم کَتَبَ إِلَی کِسْرَی وَقَیْصَرَ وَالنَّجَاشِيِّ، فَقِیْلَ لَہُ: إِنَّھُمْ لَا یَقْبَلُوْنَ کِتَابًا إِلَّا بِخَاتَمٍ، فَصَاغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم خَاتَمًا حَلْقَتُہُ فِضَّۃٌ وَنُقِشَ فِیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ ’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری (شاہ فارس) قیصر (شاہ روم) او رنجاشی (شاہ حبشہ) کی طرف خطوط تحریر فرمائے تو (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے) کہا گیا کہ یقیناً وہ لوگ بلا مہر خط قبول نہیں کرتے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی بنوالی جس کا حلقہ چاندی کا تھا اور اس پر مُحَمَّدٌ رَسُوْ لُ الله ِ نقش تھا۔‘‘ تخریج: صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینة (۳؍۵۸، برقم۱۶۵۷) مزید تخریج گذشتہ حدیث کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔ تشریح :...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے اکثر شاہان کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے، جن کے جواب میں بعض مسلمان ہوئے، بعض اپنے کفر پر ڈٹے رہے، مگر اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ کفر والوں کی توجہ دینِ اسلام کی طرف مبذول ہوگئی اور ان کے نزدیک بھی اسلام کا تعارف ہو گیا۔ ذیل میں ان خطوط کی کچھ تفصیل درج ہے۔ نام بادشاہ اصلی نام کس صحابی کو بھیجا (۱) نجاشی، شاہِ حبشہ اصحمہ سیدنا عمر وبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ (۲) مقوقس، عزیزِ مصر جریح بن فتی سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ (۳) کسرٰی، شاہِ فارس خسرو پرویز سیدنا عبداللہ حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ (۴) قیصر، شاہِ روم ہر قل سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ (۵) حاکمِ بحرین منذر بن ساوی سیدنا علاء بن خضرمی رضی اللہ عنہ (۶) حاکمِ عامہ مبوزہ بن علی سیدنا سلیط بن عمر وعامری رضی اللہ عنہ (۷) حاکمِ دمشق حارث بن ابی شمر غسانی سیدنا شجاع بن وھب رضی اللہ عنہ (۸) شاہِ یمامہ جیفر اورا س کے بھائی سیدنا عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط شاہان ممالک کو بھیجے، بعض علماء نے ان کو مستقل تصانیف میں جمع کیا ہے حدیث الباب میں تین مکتوبات کا ذکر ہے جن کا تفصیلی تذکرہ مناسب معلوم ہو تا ہے۔ مکتوبِ گرامی کسری پرویز کے نام آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری (فارس کے ہر بادشاہ کو کسری کہاجاتا تھا اس کسری کا نام خسروپرویز تھا جو نوشیرواں کا پوتا تھا ) کے نام جو خط بھیجا وہ سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجا خط کا مضمون حسب ذیل تھا۔ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَانِ الرَّ حِیْم۔ مِنْ مُحَمدٍَّ رَسُوْلِ الله ِ إِلیٰ کِسرٰی عَظِیْم ِ فَارِسَ سَلَامٌ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰی، وَأَمَنَ بِالله ِ وَرَسُوْلِهِ، أَدْعُوْكَ بِدَ عَایَةِ اللهِ، فَإِنِیّ أَنَا رَسُوْ لُ اللهِ إِلی النَّاسِ کَافَّةً لِیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّاوَیَحِقَّ الْقُوْ لُ عَلیٰ الْکَافِرِیْنَ أَسْلِمْ تَسْلَمْ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَإِنَّ عَلَیْكَِ إِثْمَ الْمَجُوسِ۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف سے کسرٰی کے نام، جو فارس کا بڑا اور سردار ہے سلامتی اس شخص کے لیے ہے جو ہدایت اختیار کرے اور اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے، اور اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کی پکار کی دعوت دیتا ہوں اس لیے کہ میں وہ رسول ہوں جو تمام لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ ان لوگوں کو ڈراؤں جن کے دل زندہ ہیں (یعنی ان میں کچھ عقل وسمجھ ہے کہ بے عقل آدمی بمنزلہ مردہ ہے )ا ور تا کہ اللہ تعالیٰ کی حجت کا فروں پر پوری ہو جائے۔ تو اسلام لے آ۔تا کہ سلامتی سے رہے ورنہ تیرے اتباع مجوس کا وبال بھی تجھ پر ہوگا۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کو دے کر ارشاد فرمایا کہ کسری کا گورنر جو بحرین میں رہتا ہے اس کے ذریعے سے اس کو کسرٰی تک پہنچادیں۔ چنانچہ یہ اسی ذریعہ سے و ہاں تک پہنچے۔ کسری بد بخت نے یہ مکتوب گرامی سنتے ہی چاک کر دیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بد دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا اور اس کے بیٹے شیر ویہ نے اس کو بری طرح قتل کر دیا جس کا قصہّ کتب توارایخ میں مذکورہے۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب کتاب النبي صلى الله علیه وسلم إلی کسریٰ وقیصر، حدیث:۴۴۲۴۔ عیون الاثر لابن سید الناس (۲؍۳۴۷)۔) مکتوب مبارک شاہ روم قیصر کے نام : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مکتوب جس کا حدیث الباب میں تذکرہ ہے قیصر کے نام بھیجا، جو روم کا بادشاہ تھا اس کا نام ہر قل تھا۔ سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ یہ خط لے کر اس کے پاس گئے، قیصر مسلمان تو نہ ہوا لیکن اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو نہایت اکرام واحترام سے رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا تو فرمایا : ’’کسری نے اپنے ملک کے ٹکڑے کرلیے اور قیصر نے اپنے ملک کی حفاظت کی۔‘‘ مکتوب گرامی کا متن حسب ذیل ہے۔ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مّنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللّٰه ِ وَرَسُوْ لِهِ إِلیٰ هِرَقْلَ عَظِیْمِ الرُّوْمِ، سَلَامٌ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰی أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّیْ أَدْعُوْكَ بِدَ عَایَةِ اِلْاِ سْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، یُوْ تِكَ اللّٰهُ أَجْرَكَ مَرَّ تَیْنِ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَإِنَّ عَلَیْكَ إِ ثْمَ الْإِرِْیْسِیِّیْنَ وَیَاأَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالُوْا إِلٰی کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللّٰه ولا نُشْرِكَ بِهِ شَیْئًا وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْ بَابًا مِنْ دُوْنِ الله ِ فَإِ نْ تَوَ لَّوْا فَقُوْ لُوْا اشْهَدُوْا بِأَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔‘‘ بسم الله الرحمن الرحیم۔ یہ خط محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف سے، جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ہرقل کی طرف، جو روم کا بڑا اور سردار ہے۔ سلامتی اس شخص کے لیے ہے جو ہدایت اختیار کرے۔ حمد وصلوٰۃ کے بعد میں تجھ کو اسلام کے کلمہ کی طرف دعوت دیتا ہوں، تو اسلام لے آ، تا کہ سلامتی سے رہے (اگر ایسا کرے گا تو )اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر عطا فرمائیں گے، اور اگر تو روگر دانی کرے گا تو تیرے ماتحت زراعت پیشہ لوگوں کا وبال بھی تجھ پر ہو گا۔ اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے اور وہ توحید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں اورا للہ تعالیٰ کا کسی کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی آپس میں ایک دوسرے کو رب نہ بنائے، اور اگر اس کے بعد بھی اہل کتاب روگر دانی کریں تو مسلمانو ! تم ان سے کہہ دو کہ تم اس کے گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ جب یہ خط لے کر گئے اور قیصر کے سامنے یہ خط پڑھا گیا تو اس کا بھتیجا بھی وہاں موجود تھا وہ نہایت غصہ میں اٹھا اور کہنے لگا : یہ خط مجھے دو۔ قیصر نے کہا: تو کیا کرے گا ؟ اس نے کہا : یہ خط پڑھنے کے لائق نہیں ہے اس میں آ پ کے نام سے ابتداء نہیں کی گئی، اور آپ کو بادشاہ کی بجائے روم کا بڑا آدمی لکھا گیا ہے۔ قیصر نے کہا: تو بڑا بے وقوف ہے، یہ چاہتا ہے کہ میں ایسے شخص کے خط کو پھینک دوں جس کے پاس ناموس اکبر (جبرئیل امین علیہ السلام)آتے ہوں، اگر وہ نبی ہیں تو ان کو ایسے ہی لکھنا چاہیے، اس کے بعد قیصر نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو بڑے اعزاز واکرام سے ٹھہرایا۔ قیصر اس وقت سفر میں تھا، واپسی پر اس نے اپنے ارکانِ سلطنت اور امراء و وزراء کو بلوایا اور کہا : میں تم کو ایسی بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں جو سراسر خیر وفلاح ہے اور ہمیشہ کے لیے تمھارے ملک کی بقا کا ذریعہ ہے۔ بے شک یہ نبی ہیں، ان کا اتباع کرلو اور ان کی بیعت اختیار کرلو، اس نے ایک بند مکان میں جس کے سب دروازے بند کر ائے گئے تھے اس مضمون پر ایک لمبی تقریر کی۔ وہ لوگ اس قدر متوحش ہوئے کہ ایک دم شوروشغب پیدا ہو گیا لوگ ادھر اُدھر بھاگنے لگے مگر سب دروازے بند تھے، دیر تک ہنگامہ برپا رہا اس کے بعد اس نے سب کو چپ کر وایا، اور تقریر کی کہ درحقیقت ایک مدعی نبوت پیدا ہو ا ہے۔ میں تم لوگوں کا امتحان لینا چاہتا تھا کہ تم اپنے دین میں کس قدر پختہ ہو؟ اب مجھے اندازہ ہو گیا کہ تم بہت پکے ہو۔ وہ لوگ اس کے سامنے اپنی عادت کے موافق سجدے میں گر گئے اس کے بعد اس نے ان کو شاباشی وغیرہ دے کر رخصت کر دیا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس نے خط کو پڑھ کر چوما، سر پر رکھا اور ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں بڑے پوپ کو طلب کیا۔ اس سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا : بے شک یہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں جن کی بشارتیں ہماری کتاب میں موجود ہیں۔ قیصر نے کہا مجھے بھی یقین ہے مگر اشکال یہ ہے کہ اگر میں مسلما ن ہو جاؤں تو یہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے، اور میری سلطنت جاتی رہے گی۔ قیصر کا تجارتی قافلہ سے مکالمہ : قیصر کو جس وقت یہ مکتوب گر امی ملا، وہ اس وقت اپنی مذہبی ضرورت کے لیے بیت المقدس آیا ہوا تھا۔ وہاں مکہ مکرمہ کا ایک بڑا تجارتی قافلہ بھی پہنچا ہوا تھا اس نے تحقیق حال کے لیے اس قافلے کے سرداروں کو طلب کیا اس کا مفصل قصہ صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی زبانی موجود ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان او ر اہل مکہ کے درمیان چند سال کے لیے ایک عہد نامہ تیار ہوا تھا۔ میں ملک شام میں گیا ہوا تھا کہ اس اثناء میں ہر قل کے نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گرامی نامہ پہنچا۔ تو اس نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی ایسا ہے جو مدعی نبوت کے شہر کا ہو ؟ ان لوگوں نے کہا: ہاں ! کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں قریش کے چند لوگوں کے ہمراہ اس کے پاس گیا اس نے ہم سب کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ اس شخص کے ساتھ جو نبوت کا دعویدار ہے تم میں سب سے زیادہ قرابت داری کس کی ہے ؟ میں نے کہا : میں سب سے زیادہ اس کا قرابت دار ہوں۔ اس نے مجھے اپنے قریب بلایا، اور باقی ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھایا۔ اور ان سے کہا کہ میں اس سے چند سوالات کرتا ہوں، تم سب غور سے سنتے رہنا اور جس بات کا جواب جھوٹ بتائے تو تم اس کو ظاہر کر دیتا۔ ابوسفیان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو تے تھے اور مسلمانوں کے سخت ترین دشمن تھے۔ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! اگر مجھے اپنی بدنامی کا اندیشہ نہ ہو تا کہ لوگ بعد میں مجھے جھوٹ سے بد نام کریں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا، مگر خوفِ بد نامی نے مجھے سچ بولنے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان کے ذریعے مجھ سے حسب ذیل سوالات کیے۔ ابوسفیان سے سوالات اور ان کے جوابات : سوال: یہ مدعی نبوت نسب کے اعتبار سے تم میں کیسے شخص سمجھے جاتے ہیں ؟ جواب: یہ ہم میں بڑے عالی نسب ہیں۔ سوال: ا ن کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے ؟ جواب: کوئی نہیں ہوا۔ سوال : نبوت کے دعوے سے قبل تم کبھی ان کو جھوٹ بولنے کا الزام دیتے تھے ؟ جواب: کبھی نہیں ! بلکہ وہ ہم میں صادق وامین سمجھے جاتے تھے۔ سوال: ان کے متبعین قوم کے شرفاء ہیں یا معمولی درجے کے آدمی ؟ جواب: معمولی درجے کے آ دمی۔ سوال: ان کے متبعین کا گروہ بڑھتا جارہا ہے یا کم ہو تا جاتا ہے ؟ جواب: بڑھتا جاتا ہے۔ سوال: ان کے دین میں داخل ہو نے کے بعد اس سے بد دل ہو کر کوئی دین سے پھر بھی جاتے ہیں یا نہیں ؟ جواب: نہیں۔ سوال: تمھاری ان کے ساتھ کبھی جنگ ہوئی یا نہیں ؟ جواب: ہوئی ہے۔ سوال: جنگ کا پانسا کیسا رہا ؟ جواب: کبھی وہ غالب ہو جاتے ہیں کبھی ہم غالب ہو جاتے ہیں۔ سوال: کبھی انھوں نے بد عہدی کی ہے ؟ جواب: نہیں۔ لیکن آج کل ہمار ا اور ان کا ایک معاہدہ ہے، نہ معلوم وہ اس کو پورا کریں گے یا نہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اس کلمہ کے سوا کسی چیز میں بھی مجھے موقع نہ ملا کہ کچھ اپنی طرف سے ملا دوں۔ سوال: اس سے قبل کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ؟ جواب: نہیں۔ ابوسفیان کے جوابات پر ہر قل کا تبصرہ ٭ اس کے بعد ہر قل نے ازسرِ نو سلسلہ شروع کیا اور کہا کہ میں نے تم سے ان کے نسب کے بارہ میں سوال کیا تم نے عالی نسب بتایا۔ انبیاء اپنی قوم کے شریف خاندان ہی میں پیدا ہوتے ہے۔ ٭ میں نے پوچھا کہ ان کے بڑوں میں کوئی شخص بادشاہ ہوا ہے؟ تم نے کہا نہیں۔ مجھے یہ خیال ہوا تھا کہ شاید اس بہانے سے وہ اس بادشاہت کو واپس لینا چاہتے ہیں۔ ٭ میں نے ان کے متبعین کے بارے میں سوال کیا کہ شرفاء ہیں یا کمزور لوگ ؟ تم نے جواب دیا کہ کمزور لوگ ہیں۔ تو ہمیشہ سے انبیاء کا اتباع کرنے والے ابتداء ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔ ٭ میں نے سوال کیا تھا کہ اس دعویٰ سے قبل تم اس پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے یا نہیں ؟ تو تم نے انکار کر دیا میں نے یہ سمجھا تھا کہ شاید لوگوں کے متعلق جھوٹ بولتے بولتے انہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہو۔ ٭ میں نے سوال کیا تھا کہ اس کے دین میں داخل ہو کر اس سے ناراض ہو کر کوئی مرتد ہوا ہے؟ تم نے اس سے انکار کیا۔ ایمان کی یہی خاصیت ہے جس کی بشاشت دلوں میں گھس جائے، پھر نکلتی نہیں۔ ٭ میں نے پوچھا کہ وہ لوگ بڑھتے رہتے ہیں یا کم ہوئے ہیں ؟ تم نے کہا کہ بڑھتے جاتے ہیں ایمان کا خاصہ یہی ہے کہ دین کی تکمیل ہو جائے۔ ٭ میں نے ان سے جنگ کے بارے میں سوال کیا تھا تم نے کہا کہ کبھی وہ غالب آگئے کبھی ہم۔ انبیاء کے ساتھ ہمیشہ یہی برتاؤ رہا ہے لیکن بہتر انجام انہی کے لیے ہو تا ہے۔ ٭ میں نے بد عہدی کے متعلق سوال کیا تم نے انکار کیا۔ یہی انبیاء کی صفت ہو تی ہے کہ وہ بد عہد نہیں ہوتے۔ ٭ میں نے پوچھا تھا کہ ان سے پہلے کسی نے نبوت کا دعوی کیا؟ تم نے اس سے انکار کیا۔ میں نے خیال کیا تھا کہ اگر کسی نے ان سے قبل یہ دعوی کیا ہو گا تو میں سمجھوں گا کہ یہ اسی قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جاچکا ہے۔ بے شک وہ نبی ہیں : اس کے بعد ہر قل نے ان لوگوں سے پوچھا کہ ان کی تعلیمات کیا ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا : نماز پڑھنے کا، صدقہ کرنے کا، صلہ رحمی کا، عصمت و پاکدامنی کا حکم کرتے ہیں، ہر قل نے کہا: اگر یہ سب امور سچ ہیں جو تم نے بیان کیے تو وہ بے شک نبی ہیں۔ مجھے یہ تو یقین تھا کہ وہ عنقریب پیدا ہو نے والے ہیں مگر یہ یقین نہیں تھا کہ تم میں سے ہوں گے، اگر مجھے یقین ہو تا کہ میں ان تک پہنچ سکتا ہوں تو ان سے ملنے کی خواہش کرتا، اور میں ان کے پاس ہو تا تو ان کے پاؤں دھو تا۔ بلاشبہ ان کی سلطنت اس جگہ تک پہنچنے والی ہے جہاں میں ہوں۔ (صحیح بخاري، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول الله صلى الله علیه وسلم، حدیث:۷۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب کتب النبي صلى الله علیه وسلم إلی هرقل، حدیث:۱۷۷۳۔) مکتوب گرامی شاہ حبشہ نجاشی کے نام : تیسرا خط جس کا حدیث الباب میں تذکرہ ہے وہ نجاشی کے نام تھا۔ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہو تا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو نجاشی تھا اس کا نام اصحمہ تھا۔ یہ مسلمان ہو گئے تھے۔ ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی سلطنت حبشہ میں اس وقت ہجرت کی جبکہ یہ مسلمان بھی نہ ہوئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر وبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان کے پاس مکتوبِ گر امی بھیجا جس کا متن حسب ذیل ہے۔ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَانِِ الرَّحِیْمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰهِ إِلٰی النَّجَاشِيْ مَلِكِ الْحَبَشَةِ سَلِمٌ اَنْتَ، فَإِنِّیْ أَحْمَدُ إِلَیْكَ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عِیْسٰی بْنَ مَرْیَمَ رُوْحُ اللّٰهِ وَکَلِمَتُهُ، أَلْقَاهَا إِلٰی مَرْیَمَ الْبَتُوْلِ الطَّیِّبَةِ الْحَصِیْنَهِ فَحَمَلَتْ بِهِ، فَخَلَقَهُ مِنْ رُوْحِهِ، وَنَفَخَهٗ کَمَا خَلَقَ آدَمَ بِیَدِهِ، وَإِنِّیْ أَدْعُوْكَ إِلٰی اللّٰهَ وَحْدَہُ لَا شَرِیْكَ لَهُ، وَالْمَوَالَاةُ عَلٰی طَاعَتِهِ، وَأَنْ تَتَّبِعَنِيْ وَتُوْمِنَ بِالَّذِيْ جَائَنِيْ، فَإِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ، وَإِنِّيْ أَدْعُوْكَ وَجُنُوْدَكَ إِلٰی اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ۔ وَقَدْ بَلَّغْتُ وَنَصَحْتُ فَاقْبَلُوْا نَصِیْحَتِيْ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰی۔‘‘ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف سے، حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے نام۔ تم صلح پسند ہو۔ میں اس اللہ تعالیٰ کی تعریف تمھارے پاس پہنچاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، سب عیبوں سے پاک ہے، ہر قسم کے نقص سے پاک ہے، امن دینے والا نگہبان ہے، اور میں اس بات کا قرار کرتا ہوں کہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ایک روح اور اس کے وہ کلمہ تھے جس کو اللہ تعالیٰ نے پاک وصاف کنواری مریم کی طرف بھیجا تھا، پس وہ حاملہ بن گئیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی ایک خاص روح سے پیدا کیا اور ان میں جان ڈال دی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو (بغیر باپ کے )اپنے دست مبارک سے پیدا فرمایا، میں تمھیں اسی وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ کی بندگی کی دعوت دیتا ہوں، اور اس کی اطاعت پر تعاون کی طرف بلاتا ہوں، اورا س بات کی طرف بلاتا ہوں کہ تم میرا اتباع کرو اور جو شریعت میں لے کر آیا ہوں اس پر ایمان لاؤ۔ بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف تم کو اور تمھارے سارے لشکروں کو بلاتا ہوں، میں حق بات تم تک پہنچاچکا، اور نصیحت کر چکا ہوں، تم میری نصیحت کو قبول کر لو، اور سلامتی اس شخص پر جو ہدایت کا اتباع کرے۔‘‘( عیون الأثر (۲؍۳۴۹)۔ طبقات ابن سعد (۱؍۲۸۵۔۲۵۹)۔) علماء حدیث کی ایک جماعت کی تحقیق یہ ہے کہ یہ نجاشی پہلے سے مسلمان ہو چکے تھے، اس مکتوبِ گرامی پر انہوں نے اپنے اسلام کا برملا اظہار کیا اور جواباً ایک عریضہ لکھا جس میں اپنے ایمان کا اقرار کیا اور یہ بھی اقرار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ لکھا وہ حرف بہ حرف سچ اور صحیح ہے، اور اپنے بیٹے کے ہاتھ ساٹھ افراد سمیت یہ عریضہ خدمتِ اقدس میں بھیجا۔ مگر افسوس کہ راستہ میں وہ کشتی سمندر میں غرق ہو گئی اور ان میں سے کوئی بھی خدمتِ اقدس میں نہ پہنچ سکا۔ خود اس نجاشی کا انتقال بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی ہو گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ (صحیح بخاري، کتاب مناقب الأنصار، باب موت النجاشي، حدیث:۳۸۷۷۔۳۸۷۹۔)