شمائل ترمذی - حدیث 88

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ،حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: " لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الْعَجَمِ قِيلَ لَهُ: إِنَّ الْعَجَمَ لَا يَقْبَلُونَ إِلَّا كِتَابًا عَلَيْهِ خَاتَمٌ، فَاصْطَنَعَ خَاتَمًا فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي كَفِّهِ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 88

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا بیان ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امر ا ء عجم کو خطوط لکھنے کا اراد ہ فرمایا تو عرض کیا گیا کہ امراء عجم ان خطوط کو قبول نہیں کرتے جس پر مہر نہ لگی ہو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی بنوائی، گویا میں اس کی سفیدی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی مبارک میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘
تشریح : ٭ ’’أَنْ یَکْتُبَ إِلیٰ الْعَجَمِ‘‘ یہ کہ عجمیوں کو خطوط لکھیں بعض روا یات میں ’’أَنْ یَکْتُبَ إِلیٰ رَهْطٍ أَوْ أُنَاسٍ مِنَ الْأَعَاجِم‘‘ کہ عجمیوں کے کچھ لوگوں او ر قبیلوں کی طرف لکھنا چاہا (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب نقش الخاتم، حدیث:۵۸۷۲۔) اور ایک حدیث میں ہے ’’أَنْ یَکْتُبَ إِلی الرُّوْمِ‘‘ کہ رومیوں کی طرف لکھنا چاہا (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب اتخاذ الخاتم لیختم به الشيء...، حدیث:۵۸۷۵۔)یہ ہجرت کا ساتواں برس تھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسرٰ ی، قیصر اور نجاشی وغیرھم کی طرف خطوط تحریر فرمائے، ان خطوط میں ان شاہان کو دعوتِ اسلام دی گئی۔ ٭ ’’إِنَّ الْعَجَمَ لَایَقْبَلُوْنَ إِلَّاکِتَابًا عَلَیْهِ خَاتَمٌ‘‘ یعنی جو خط بغیر مہر کے ہو وہ خط عجم کے لوگ قبول نہیں کرتے، صحیح بخاری شریف میں دوسرے الفاظ ہیں کہ ’’إِنَّهُمْ لَنْ یَّقْرَؤُا کِتَابَكَ‘‘(صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب اتخاذ الخاتم لیختم به...، حدیث:۵۸۷۵۔الدار قطني في الأفراد کما في سبل الهدی والرشاد (۷؍۲۳۲)۔) یعنی وہ آپ کا نامہ مبارک نہیں پڑھیں گے جب تک اس پر مہر نہ ہو۔ یعنی وہ لوگ بغیر مہر کے خطوط کو توجہ واعتماد کی حیثیت نہیں دیتے اور جس خط پر مہر ہو وہ اسے قابل اعتماد واحترام اور لائق توجہ سمجھتے ہیں۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مشورہ تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ صاحب مواہب نے لکھا ہے کہ ’’وَیَدُلُّ عَلیٰ حُسْنِ اِسْتِمَاعِ الَّرسُوْ لِ صلى الله عليه وسلم لِمَشْوَرَةِ أَصْحَابِه وَتَنْفِیْذِهَا فَوْرًا فِیْمَا یَعُوْدُ عَلی الْإِسْلَامِ مِنْ نَفْعِ کَبِیْرٍ اَوْصَغِیِرٍ‘‘ کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے مشورہ کو لائق توجہ سمجھا اس لیے اس پر فورًا عمل کرڈالا ا اور انگوٹھی بنانے کا حکم دے دیا۔ ٭ ’’فَاصْطَنَعَ خَاتَمًا‘‘پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگو ٹھی بنوالی، انگوٹھی بنانے کی سعادت سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کے حصّے میں آئی، سنن دارقطنی میں ان سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں۔ أَنَا صَنَعْتُ لِلَّنبِیِّ صلى الله عليه وسلم خَاتَمًالَمْ یُشْرِکْنِيْ فِیْهِ أَحَدٌ نَقَشْتُ فِیْهِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ الله ِ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انگھوٹھی میں اکیلے نے بنائی میرے ساتھ اور کوئی بھی اس سعادت میں حصہ دار نہیں، میں نے اس میں محمد رسول اللہ کندہ کیا۔ ٭ ’’فَکَأَنِّيْ أَنْظُرُ‘‘ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ عنہ فرماتے ہیں کہ گویا میں اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ اس سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے کمال اتقان واستحضار کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے دل ودماغ اور ایقان واستحضار میں اس وقت بھی وہ سفیدی جلوہ آرا تھی۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب اللباس (۱۰؍ ۵۸۷۲، ۵۸۷۵)، کتاب الجهاد، باب دعوة الیهود والنصاری، صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة (۳،۱۶۵۷)، سنن أبي داود (۴،۴۲۱۴)سنن ترمذي أبواب الاستیذان (۵،۲۷۱۸) ٭ ’’أَنْ یَکْتُبَ إِلیٰ الْعَجَمِ‘‘ یہ کہ عجمیوں کو خطوط لکھیں بعض روا یات میں ’’أَنْ یَکْتُبَ إِلیٰ رَهْطٍ أَوْ أُنَاسٍ مِنَ الْأَعَاجِم‘‘ کہ عجمیوں کے کچھ لوگوں او ر قبیلوں کی طرف لکھنا چاہا (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب نقش الخاتم، حدیث:۵۸۷۲۔) اور ایک حدیث میں ہے ’’أَنْ یَکْتُبَ إِلی الرُّوْمِ‘‘ کہ رومیوں کی طرف لکھنا چاہا (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب اتخاذ الخاتم لیختم به الشيء...، حدیث:۵۸۷۵۔)یہ ہجرت کا ساتواں برس تھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسرٰ ی، قیصر اور نجاشی وغیرھم کی طرف خطوط تحریر فرمائے، ان خطوط میں ان شاہان کو دعوتِ اسلام دی گئی۔ ٭ ’’إِنَّ الْعَجَمَ لَایَقْبَلُوْنَ إِلَّاکِتَابًا عَلَیْهِ خَاتَمٌ‘‘ یعنی جو خط بغیر مہر کے ہو وہ خط عجم کے لوگ قبول نہیں کرتے، صحیح بخاری شریف میں دوسرے الفاظ ہیں کہ ’’إِنَّهُمْ لَنْ یَّقْرَؤُا کِتَابَكَ‘‘(صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب اتخاذ الخاتم لیختم به...، حدیث:۵۸۷۵۔الدار قطني في الأفراد کما في سبل الهدی والرشاد (۷؍۲۳۲)۔) یعنی وہ آپ کا نامہ مبارک نہیں پڑھیں گے جب تک اس پر مہر نہ ہو۔ یعنی وہ لوگ بغیر مہر کے خطوط کو توجہ واعتماد کی حیثیت نہیں دیتے اور جس خط پر مہر ہو وہ اسے قابل اعتماد واحترام اور لائق توجہ سمجھتے ہیں۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مشورہ تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ صاحب مواہب نے لکھا ہے کہ ’’وَیَدُلُّ عَلیٰ حُسْنِ اِسْتِمَاعِ الَّرسُوْ لِ صلى الله عليه وسلم لِمَشْوَرَةِ أَصْحَابِه وَتَنْفِیْذِهَا فَوْرًا فِیْمَا یَعُوْدُ عَلی الْإِسْلَامِ مِنْ نَفْعِ کَبِیْرٍ اَوْصَغِیِرٍ‘‘ کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے مشورہ کو لائق توجہ سمجھا اس لیے اس پر فورًا عمل کرڈالا ا اور انگوٹھی بنانے کا حکم دے دیا۔ ٭ ’’فَاصْطَنَعَ خَاتَمًا‘‘پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگو ٹھی بنوالی، انگوٹھی بنانے کی سعادت سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کے حصّے میں آئی، سنن دارقطنی میں ان سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں۔ أَنَا صَنَعْتُ لِلَّنبِیِّ صلى الله عليه وسلم خَاتَمًالَمْ یُشْرِکْنِيْ فِیْهِ أَحَدٌ نَقَشْتُ فِیْهِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ الله ِ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انگھوٹھی میں اکیلے نے بنائی میرے ساتھ اور کوئی بھی اس سعادت میں حصہ دار نہیں، میں نے اس میں محمد رسول اللہ کندہ کیا۔ ٭ ’’فَکَأَنِّيْ أَنْظُرُ‘‘ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ عنہ فرماتے ہیں کہ گویا میں اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ اس سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے کمال اتقان واستحضار کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے دل ودماغ اور ایقان واستحضار میں اس وقت بھی وہ سفیدی جلوہ آرا تھی۔