شمائل ترمذی - حدیث 82

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي نَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، (ح) وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِذَا انْتَعَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِالْيَمِينِ، وَإِذَا نَزَعَ فَلْيَبْدَأْ بِالشِّمَالِ، فَلْتَكُنِ الْيَمِينُ أَوَّلَهُمَا تُنْعَلُ وَآخِرَهُمَا تُنْزَعُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 82

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک کا بیان ’’ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی جوتا پہنے تو دائیں جانب سے شروع کر ے اور جب اتارے تو بائیں جانب سے شروع کرے، پہننے کے لحاظ سے دایاں پاؤں پہلے، اور اتارنے کے لحاظ سے دایاں پاؤں آخر میں ہونا چاہیے۔ ‘‘
تشریح : حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ’’ فتح الباری ‘‘ میں فرماتے ہیں : ابن العربی نے کہا ہے کہ تمام اچھے کاموں میں دائیں جانب سے شروع کرنا مشروع ہے، کیونکہ قوتِ حس دائیں جانب میں زیادہ ہو تی ہے اور شرعاً بھی دائیں جانب کو مقدم رکھنا مستحب ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ تکریم وزینب کے بیان میں دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے اور اس کے برعکس میں بائیں جانب سے ابتداء بہتر ہے۔ جس طرح بیت الخلاء میں داخل ہونا، جوتا یا موزہ اتارنا، مسجد سے نکلنا، استنجاء وغیرہ کرنا اور دیگر مستقذرات اشیاء ہیں۔ ‘‘ حلیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ جوتا وغیرہ اتارتے ہوئے بائیں جانب سے ابتداء کرنا، اس لیے بہتر ہے کہ لباس کا پہننا کرامت ہے کیونکہ وہ بدن کے بچاؤ کا باعث ہے، اور جب دایاں حصہ بائیں سے اچھا اور معزز ہے تو اسی لیے پہننے میں اس سے ابتداء کی گئی اور اتارنے میں اسے پیچھے رکھا گیا ہے۔ تا کہ کرامت اس کے لیے دیر تک رہے اور کرامت کا حصہ اسے زیادہ مل سکے۔ ‘‘ امام بن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جس نے پہلے بائیں پاؤں میں جوتاپہن لیا اس نے سنت کی مخالفت کر کے براکام کیا، لیکن اس پر اب اس کو اسی طرح پہننے رکھنا حرام نہیں ہے۔ ‘‘ مگر دیگر علماء کہتے ہیں کہ اسے بائیں پاؤں سے جوتا فوراً اتار دینا چائیے، پھر دائیں پاؤں میں پہلے جوتا پہنے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے متعلق جوامر ہے وہ بالا جماع استحباب کے لیے ہے۔ والله اعلم۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب ینزع النعل الیسری (۱۰ ؍ ۵۸۵۶)، صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة، باب استحباب لبس النعال فی الیمنی، سنن أبي داود، کتاب اللباس (۴ ؍ ۴۱۳۹)، سنن ترمذي، أبواب اللباس (۴ ؍ ۱۷۷۹) وقال حدیث حسن صحیح۔ مسند أحمد بن حنبل (۲ ؍ ۴۶۵)، مؤطا إمام مالك، کتاب اللباس (۲ ؍ ۱۵، برقم: ۹۱۶)، مسند حمیدي (۱۱۳۵)۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ’’ فتح الباری ‘‘ میں فرماتے ہیں : ابن العربی نے کہا ہے کہ تمام اچھے کاموں میں دائیں جانب سے شروع کرنا مشروع ہے، کیونکہ قوتِ حس دائیں جانب میں زیادہ ہو تی ہے اور شرعاً بھی دائیں جانب کو مقدم رکھنا مستحب ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ تکریم وزینب کے بیان میں دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے اور اس کے برعکس میں بائیں جانب سے ابتداء بہتر ہے۔ جس طرح بیت الخلاء میں داخل ہونا، جوتا یا موزہ اتارنا، مسجد سے نکلنا، استنجاء وغیرہ کرنا اور دیگر مستقذرات اشیاء ہیں۔ ‘‘ حلیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ جوتا وغیرہ اتارتے ہوئے بائیں جانب سے ابتداء کرنا، اس لیے بہتر ہے کہ لباس کا پہننا کرامت ہے کیونکہ وہ بدن کے بچاؤ کا باعث ہے، اور جب دایاں حصہ بائیں سے اچھا اور معزز ہے تو اسی لیے پہننے میں اس سے ابتداء کی گئی اور اتارنے میں اسے پیچھے رکھا گیا ہے۔ تا کہ کرامت اس کے لیے دیر تک رہے اور کرامت کا حصہ اسے زیادہ مل سکے۔ ‘‘ امام بن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جس نے پہلے بائیں پاؤں میں جوتاپہن لیا اس نے سنت کی مخالفت کر کے براکام کیا، لیکن اس پر اب اس کو اسی طرح پہننے رکھنا حرام نہیں ہے۔ ‘‘ مگر دیگر علماء کہتے ہیں کہ اسے بائیں پاؤں سے جوتا فوراً اتار دینا چائیے، پھر دائیں پاؤں میں پہلے جوتا پہنے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے متعلق جوامر ہے وہ بالا جماع استحباب کے لیے ہے۔ والله اعلم۔