كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي نَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا يَمْشِيَنَّ أَحَدُكُمْ فِي نَعْلٍ وَاحِدَةٍ، لِيُنْعِلْهُمَا جَمِيعًا أَوْ لِيُحْفِهِمَا جَمِيعًا)) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ نَحْوَهُ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک کا بیان
’’ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یقیناً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایک جوتا پہن کر نہ چلے، دونوں پہن لے یا دونوں اتار دے۔ اسی طرح کی روایت قتیبۃ نے مالک سے، انہوں نے ابوالزناد سے بیان کی ہے۔ ‘‘
تشریح :
٭ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ جوتا پاؤں کو کانٹے وغیرہ سے بچاؤ کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو جب دونوں پاؤں میں سے ایک میں جوتا رہ جائے گا، تو چلنے والا دوسرے پاؤں کو بچانے کی ضرورت محسوس کرے گا اور جوتے والے پاؤں کو بچانے کی کوشش نہ کرے گا اس طرح اس کی چال اپنی عادت اور معمولی سے ہٹ جائے گی، تو وہ پھسلنے اور گرنے سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح اعضائے جسمانی میں عدل و انصاف نہیں رہتا، اور بعض دفعہ ایسا کرنے والے کو عقل و فہم میں خلل اور کمزوری کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔
٭ ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس چال سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ شیطان کی چال ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس چال کی کراہت شہرت کی وجہ سے ہے، کیونکہ جس کو اس حالت میں لوگ دیکھتے ہیں اس کی طرف اپنی آنکھیں کھول کھول کر دیکھتے ہیں۔ اس طرح لباس میں بھی شہرت سے منع کیا گیا ہے تو جس عمل سے بھی صاحبِ عمل کی مشہوری ہوتی ہو اس سے بچنا ضروری ہوجاتا ہے۔
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب لا یمشي في نعل واحدة (۱۰ ؍ ۵۸۵۵)، صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة، باب استحباب لبس النعال (۳ ؍ ۶۸، برقم: ۱۶۶۰)، سنن أبي داود، کتاب اللباس (۴ ؍ ۴۱۳۶)، جامع ترمذي، أبواب اللباس (۲ ؍ ۲۸۳، ۴۷۷، ۴۹۷)، مؤطا إمام مالك (۲ ؍ ۱۴، برقم: ۹۱۶)، سنن ابن ماجة، کتاب اللباس (۲ ؍ ۳۶۱۷)۔
٭ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ جوتا پاؤں کو کانٹے وغیرہ سے بچاؤ کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو جب دونوں پاؤں میں سے ایک میں جوتا رہ جائے گا، تو چلنے والا دوسرے پاؤں کو بچانے کی ضرورت محسوس کرے گا اور جوتے والے پاؤں کو بچانے کی کوشش نہ کرے گا اس طرح اس کی چال اپنی عادت اور معمولی سے ہٹ جائے گی، تو وہ پھسلنے اور گرنے سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح اعضائے جسمانی میں عدل و انصاف نہیں رہتا، اور بعض دفعہ ایسا کرنے والے کو عقل و فہم میں خلل اور کمزوری کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔
٭ ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس چال سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ شیطان کی چال ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس چال کی کراہت شہرت کی وجہ سے ہے، کیونکہ جس کو اس حالت میں لوگ دیکھتے ہیں اس کی طرف اپنی آنکھیں کھول کھول کر دیکھتے ہیں۔ اس طرح لباس میں بھی شہرت سے منع کیا گیا ہے تو جس عمل سے بھی صاحبِ عمل کی مشہوری ہوتی ہو اس سے بچنا ضروری ہوجاتا ہے۔