شمائل ترمذی - حدیث 77

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي نَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ ،قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ ،قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّهُ قَالَ لِابْنِ عُمَرَ: رَأَيْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، قَالَ: ((إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَعَرٌ، وَيَتَوَضَّأُ فِيهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 77

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک کا بیان ’’ عبید بن جریج سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تم سبتی جوتے پہنتے ہو۔ انہوں نے فرمایا: یقیناً میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جوتے پہنتے دیکھا ہے جن پر بال نہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں وضو فرماتے، لہٰذا میں یہ بہت پسند کرتا ہوں کہ ایسے جوتے پہنوں۔ ‘‘
تشریح : ٭ یَتَوَضَّأ فِیهَا: یعنی جب پاؤں جوتے میں ہوتے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وضو کررہے ہوتے۔ اور ثوری کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرکے گیلے پاؤں ہی ان میں ڈال لیتے تھے۔ ٭ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی کے سوال کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ معلوم کرسکے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کس حکمت کی بنیاد پر سبتی جوتے پہنتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں یہ کام اتباعِ سنت کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس فعل سے سنتِ رسول سے کمال درجہ محبت کا ثبوت ملتا ہے۔ ٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سبتی جوتے پہن کر قبروں میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ بشیر بن الخصاصیۃ کی حدیث میں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مقابر میں چل رہا تھا تو مجھے پیچھے سے کسی نے آواز دی کہ ’’ اے سبتی جوتوں والے! ایسی جگہ پر یہ جوتے اُتار دو۔ ‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الجنائز، باب المشي بین القبور في النعل، حدیث:۳۲۳۰۔ سنن نسائي (۲۰۴۷)۔ سنن ابن ماجة (۱۵۶۸)۔ مسند أحمد (۵؍۸۳،۸۴)۔) امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس مؤقف کا تعاقب کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’ شاید ان جوتوں میں غلاظت ہو، جس کی وجہ سے انہیں اتار نے کا حکم دیا گیا، ورنہ جب جوتوں سمیت نماز جائز ہے تو قبرستان میں تو بالاولیٰ یہ پہن کر جانا جائز ہوگا۔ ‘‘(شرح معانی الآثار (۲؍۳۹۵)۔) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میرا خیال ہے کہ شاید یہ نہی اکرامِ میت کے لیے ہو جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا، اور سبتی جوتوں کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ یہ اتفاقیہ بات تھی کہ انہوں نے سبتی جوتے پہن رکھے تھے، نہی تو اس بات کی تھی کہ یہ جوتوں سمیت قبروں میں چل رہے تھے۔ ‘‘ ٭ اس حدیث سے جوتے پہننے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جوتے پہنا کرو، کیونکہ آدمی جب جوتے پہنے ہوئے ہو تو وہ ایک قسم کا سوار ہوتا ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب استحباب لبس النعال، حدیث:۲۰۹۶۔ نیز دیکھئے اگلی حدیث (۹۰)۔)امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کیونکہ وہ اس طرح تھکتا بھی کم ہے، مشقت بھی کم اٹھانا پڑتی ہے اور آدمی راستے کی تکلیف سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں : یہ کلام انتہائی فصیح وبلیغ ہے جس کی مثال نہیں ملتی اس میں بہت بڑی مصلحت موجود ہے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب اللباس (۱۰ ؍ ۵۸۵۱)، صحیح مسلم، کتاب الحج (۲ ؍ ۲۵، برقم: ۸۴۴)، سنن أبي داؤد، کتاب المناسک (۲ ؍ ۱۷۸۲)، مؤطا الإمام مالک، کتاب الحج (۱ ؍ ۳۱، برقم: ۳۳۳)، مسند أحمد بن حنبل (۲ ؍ ۱۷، ۶۶، ۱۱۰)، طبقات ابن سعد (۱ ؍ ۴۷۳)، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص:۱۴۴)۔ ٭ یَتَوَضَّأ فِیهَا: یعنی جب پاؤں جوتے میں ہوتے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وضو کررہے ہوتے۔ اور ثوری کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرکے گیلے پاؤں ہی ان میں ڈال لیتے تھے۔ ٭ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی کے سوال کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ معلوم کرسکے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کس حکمت کی بنیاد پر سبتی جوتے پہنتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں یہ کام اتباعِ سنت کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس فعل سے سنتِ رسول سے کمال درجہ محبت کا ثبوت ملتا ہے۔ ٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سبتی جوتے پہن کر قبروں میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ بشیر بن الخصاصیۃ کی حدیث میں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مقابر میں چل رہا تھا تو مجھے پیچھے سے کسی نے آواز دی کہ ’’ اے سبتی جوتوں والے! ایسی جگہ پر یہ جوتے اُتار دو۔ ‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الجنائز، باب المشي بین القبور في النعل، حدیث:۳۲۳۰۔ سنن نسائي (۲۰۴۷)۔ سنن ابن ماجة (۱۵۶۸)۔ مسند أحمد (۵؍۸۳،۸۴)۔) امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس مؤقف کا تعاقب کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’ شاید ان جوتوں میں غلاظت ہو، جس کی وجہ سے انہیں اتار نے کا حکم دیا گیا، ورنہ جب جوتوں سمیت نماز جائز ہے تو قبرستان میں تو بالاولیٰ یہ پہن کر جانا جائز ہوگا۔ ‘‘(شرح معانی الآثار (۲؍۳۹۵)۔) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میرا خیال ہے کہ شاید یہ نہی اکرامِ میت کے لیے ہو جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا، اور سبتی جوتوں کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ یہ اتفاقیہ بات تھی کہ انہوں نے سبتی جوتے پہن رکھے تھے، نہی تو اس بات کی تھی کہ یہ جوتوں سمیت قبروں میں چل رہے تھے۔ ‘‘ ٭ اس حدیث سے جوتے پہننے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جوتے پہنا کرو، کیونکہ آدمی جب جوتے پہنے ہوئے ہو تو وہ ایک قسم کا سوار ہوتا ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب استحباب لبس النعال، حدیث:۲۰۹۶۔ نیز دیکھئے اگلی حدیث (۹۰)۔)امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کیونکہ وہ اس طرح تھکتا بھی کم ہے، مشقت بھی کم اٹھانا پڑتی ہے اور آدمی راستے کی تکلیف سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں : یہ کلام انتہائی فصیح وبلیغ ہے جس کی مثال نہیں ملتی اس میں بہت بڑی مصلحت موجود ہے۔