كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي نَعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،وَيَعْقُوْبُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ طَهْمَانَ قَالَ: ((أَخْرَجَ إِلَيْنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ نَعْلَيْنِ جَرْدَاوَيْنِ لَهُمَا قِبَالَانِ.)) قَالَ: فَحَدَّثَنِي ثَابِتٌ بَعْدُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُمَا كَانَتَا نَعْلَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک کا بیان
’’ عیسی بن طہمان فرماتے ہیں : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہمیں دو جوتے نکال کر دکھائے، جن پر بال نہیں تھے اور ان دونوں کے دو تسمے تھے۔ اس کے بعد مجھے ثابت نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ یہ دونوں جوتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔ ‘‘
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس اور دیگر پہنا وے اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے، جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پا س آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ملبوسات تھے۔ صحیح بخاری ومسلم میں سیدنا ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک کمبل جس میں بہت سے پیوند لگے ہوئے تھے، اور ایک موٹا تہبند نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں وفات پائی۔ (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب الأکسیة والخمائص، حدیث:۵۸۱۸۔ صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب التواضع في اللباس، حدیث:۲۰۸۰۔) صحیح بخاری میں ہی ہے کہ ایک خاتون نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چادر لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفس نفیس اسے پہنیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا اور پھر اس کی تہبند باندھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لائے۔ صحابہ کرام میں سے ایک نے دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے پہنا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت اچھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر اس صحابی کو بھیج دی، جس نے طلب کی تھی۔ دوسرے اصحاب نے اس کو کہا کہ تونے یہ چادر مانگ کر اچھا نہیں کیا، حالانکہ تجھے علم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال ردّ نہیں فرماتے۔ اس نے جواب دیا: ’’وَاللّٰهِ مَا سَئَلْتُهَا إِلاَّ لِتَکُوْنَ کَفْنِيْ یَوْمَ أَمُوْتُ۔‘‘ ’’ مجھے اللہ کی قسم! کہ یہ سوال تو میں نے صرف اس لیے کیا تھا کہ میرے مرنے پر یہ چادر میرا کفن بنے۔ ‘‘ سیدنا سہل فرماتے ہیں کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔( صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب البرود والحبر، حدیث:۵۸۱۰۔)
صحیح مسلم شریف میں ہے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے پاس سیدالا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا جُبّہ مبارک تھا، وہ فرماتی ہیں : ’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم یَلْبَسُهَا فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضیٰ یُسْتَشْفیٰ بِهَا۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب تحریم لبس الحریر...، حدیث:۱۰؍۲۰۶۹۔) ’’ کہ نبی کریم اس جُبّہ مبارک کو پہنا کرتے تھے، ہم اس کو دھوکر بغرضِ شفا مریضوں کو پلاتے تھے۔ الغرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو متروکات نبوی سے غایت درجہ محبت اور عقیدت تھی، وہ بطور تبرک ان چیزوں کو بحفاظت اپنے پاس رکھتے تھے۔
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب فرض الخمس، باب ما ذکر في درع النبی صلى الله عليه وسلم وعصاه وسیفه (۶؍۳۱۰۷)، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص:۱۴۵)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس اور دیگر پہنا وے اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے، جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پا س آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ملبوسات تھے۔ صحیح بخاری ومسلم میں سیدنا ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک کمبل جس میں بہت سے پیوند لگے ہوئے تھے، اور ایک موٹا تہبند نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں وفات پائی۔ (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب الأکسیة والخمائص، حدیث:۵۸۱۸۔ صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب التواضع في اللباس، حدیث:۲۰۸۰۔) صحیح بخاری میں ہی ہے کہ ایک خاتون نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چادر لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفس نفیس اسے پہنیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا اور پھر اس کی تہبند باندھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لائے۔ صحابہ کرام میں سے ایک نے دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے پہنا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت اچھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر اس صحابی کو بھیج دی، جس نے طلب کی تھی۔ دوسرے اصحاب نے اس کو کہا کہ تونے یہ چادر مانگ کر اچھا نہیں کیا، حالانکہ تجھے علم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال ردّ نہیں فرماتے۔ اس نے جواب دیا: ’’وَاللّٰهِ مَا سَئَلْتُهَا إِلاَّ لِتَکُوْنَ کَفْنِيْ یَوْمَ أَمُوْتُ۔‘‘ ’’ مجھے اللہ کی قسم! کہ یہ سوال تو میں نے صرف اس لیے کیا تھا کہ میرے مرنے پر یہ چادر میرا کفن بنے۔ ‘‘ سیدنا سہل فرماتے ہیں کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔( صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب البرود والحبر، حدیث:۵۸۱۰۔)
صحیح مسلم شریف میں ہے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے پاس سیدالا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا جُبّہ مبارک تھا، وہ فرماتی ہیں : ’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم یَلْبَسُهَا فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضیٰ یُسْتَشْفیٰ بِهَا۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب تحریم لبس الحریر...، حدیث:۱۰؍۲۰۶۹۔) ’’ کہ نبی کریم اس جُبّہ مبارک کو پہنا کرتے تھے، ہم اس کو دھوکر بغرضِ شفا مریضوں کو پلاتے تھے۔ الغرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو متروکات نبوی سے غایت درجہ محبت اور عقیدت تھی، وہ بطور تبرک ان چیزوں کو بحفاظت اپنے پاس رکھتے تھے۔