كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَلْهَمِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ حُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّجَاشِيَّ أَهْدَى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُفَّيْنِ أَسْوَدَيْنِ سَاذَجَيْنِ، فَلَبِسَهُمَا ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَيْهِمَا "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزوں کا بیان
’’ سیدنا بریدۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نجاشی (شاہ حبشہ ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیاہ رنگ کے دوموزے بطور ہدیہ بھیجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنا۔ پھر وضو فرمایا تو ان پر مسح کیا۔ ‘‘
تشریح :
’’ نجاشی ‘‘ ان دنوں حبشہ کے بادشاہ کو نجاشی، فارس کے بادشاہ کوکسریٰ، روم کے بادشاہ کو قیصر، مصر کے بادشاہ کو عزیز، ترک کے بادشاہ کو خاقان اور یمن بادشاہ کو تبع کہتے تھے۔ جس نجاشی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ موزے بھیجے اس کا نام اصحمہ تھا۔ جن بادشاہوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ خطوط اسلام کو دعوت دی تھی ان میں سے ایک یہ بھی تھے۔ ان کی طرف سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ مکتوب گرامی لے کر گئے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ نجاشی سنہ ۶ہجری میں مسلمان ہوا اور سنہ ۹ ہجری میں فوت ہوا، اور جس دن نجاشی فوت ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اس کی وفات کی خبر دی اور مدینہ منورہ سے باہر کھلے میدان میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کو ساتھ لے کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب التکبیر علی الجنازة اربعا، حدیث:۱۳۳۳،۱۳۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب فی التکبیر علی الجنازة، حدیث:۹۵۱۔)
اس حدیث سے اہل کتاب کے تحفے کی قبولیت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اشیاء کی اصل اباحت ہے، اور موزوں پر مسح کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الأدب، باب في الخف الأسود (۵ ؍ ۲۸۲۰)، سنن ابن ماجة، کتاب الطهارة (۱ ؍ ۵۴۹)، وکتاب اللباس، باب خفاف الأ سود (۲ ؍ ۳۶۲۰)، مسند أحمد بن حنبل (۵ ؍ ۳۵۲)، سنن أبي داود، کتاب الطهارة، باب المسح علی الخفین (۱۵۵)، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص:۴۲)۔
’’ نجاشی ‘‘ ان دنوں حبشہ کے بادشاہ کو نجاشی، فارس کے بادشاہ کوکسریٰ، روم کے بادشاہ کو قیصر، مصر کے بادشاہ کو عزیز، ترک کے بادشاہ کو خاقان اور یمن بادشاہ کو تبع کہتے تھے۔ جس نجاشی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ موزے بھیجے اس کا نام اصحمہ تھا۔ جن بادشاہوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ خطوط اسلام کو دعوت دی تھی ان میں سے ایک یہ بھی تھے۔ ان کی طرف سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ مکتوب گرامی لے کر گئے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ نجاشی سنہ ۶ہجری میں مسلمان ہوا اور سنہ ۹ ہجری میں فوت ہوا، اور جس دن نجاشی فوت ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اس کی وفات کی خبر دی اور مدینہ منورہ سے باہر کھلے میدان میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کو ساتھ لے کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب التکبیر علی الجنازة اربعا، حدیث:۱۳۳۳،۱۳۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب فی التکبیر علی الجنازة، حدیث:۹۵۱۔)
اس حدیث سے اہل کتاب کے تحفے کی قبولیت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اشیاء کی اصل اباحت ہے، اور موزوں پر مسح کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے۔