شمائل ترمذی - حدیث 70

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ،حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَشَّقَانِ مِنْ كَتَّانٍ فَتَمَخَّطَ فِي أَحَدِهِمَا، فَقَالَ: ((بَخٍ بَخٍ يَتَمَخَّطُ أَبُو هُرَيْرَةَ فِي الْكَتَّانِ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لَأَخِرُّ فِيمَا بَيْنَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحُجْرَةِ عَائِشَةَ مَغْشِيًّا عَلَيَّ فَيَجِيءُ الْجَائِي فَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى عُنُقِي يَرَى أَنَّ بِي جُنُونًا، وَمَا بِي جُنُونٌ، وَمَا هُوَ إِلَّا الْجُوعُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 70

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت (گزر بسر) کا بیان ’’ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہم سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے۔ انہوں نے کاٹن کی، یا سِلکی دو رنگی ہوئیں سرخ پھولوں والی چادریں اوڑھ رکھی تھیں۔ انہوں نے ان میں سے ایک کے ساتھ اپنے ناک کو صاف کیا اور فرمایا: زہے زہے ابوھریرہ! آج کتان کے کپڑے سے ناک صاف کر رہے ہو، البتہ قسم ہے کہ مجھ پر ایسی حالت بھی گذری ہے کہ جب میں بھوک کی وجہ سے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرے کے درمیان نیم بے ہوشی کے عالم میں گرا پڑا ہوتا، تو گذر نے والا مجھے دیوانہ سمجھ کر میری گردن کو روندتے ہوئے گذر جاتا، حالانکہ مجھے کسی قسم کی دیوانگی نہ تھی، ایسے صرف انتہائی بھوک کی وجہ سے ہوتا۔ ‘‘
تشریح : مندرجہ بالا حدیث میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی عسرت اور تنگیٔ رزق کے زمانہ کا تذکرہ کیا ہے اور پھر اپنے دوسرے زمانہ کا تذکرہ فرمایا ہے جو فراخی رزق اور آسودگی کا دور تھا۔ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا کہ: ’’ میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرئہ مبارکہ کے درمیان بے ہوش پڑا رہتا تھا۔‘‘ شارحین نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدو رفت اسی مقام پر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے اصحاب رضی الله عنہم پر کمال درجے کی رحمت اور شفقت فرماتے تھے، لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حال میں بھوکا پڑا ہوا دیکھتے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خود بنفس نفیس زندگی مبارک اسی طرح عسرت کی تھی، اگر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی فراخی ہوتی، تو کبھی بھی سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں نہ رہنے دیتے۔ ٭ روایت میں واردجملہ فرحیہ ’’ بَخٍّ بَخٍ ‘‘ یعنی زہے زہے۔ یہ جملہ خوشحالی اور فرحت کے وقت کہا جاتا ہے اور تکرار، نشاط یعنی خوشی کے لیے ہے اس میں مبالغہ بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی واہ واہ سبحان اللہ ! ٭ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ گذرنے والا میری گردن پاؤں سے دباتا۔ ‘‘ عرب میں یہ بات کہی جاتی کہ کسی مرگی والے کو مرگی کا دورہ پڑتا تو اس کی گردن کے اعصاب کو زور زور سے دباتے تو اسے آ رام آجاتا، چنانچہ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی کیفیت کو بیان کیا ہے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما ذکر النبي صلى الله عليه وسلم وحض علی انفاق أهل العلم حدیث: ۷۲۲۴ سنن ترمذي(۲۳۶۷) مندرجہ بالا حدیث میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی عسرت اور تنگیٔ رزق کے زمانہ کا تذکرہ کیا ہے اور پھر اپنے دوسرے زمانہ کا تذکرہ فرمایا ہے جو فراخی رزق اور آسودگی کا دور تھا۔ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا کہ: ’’ میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرئہ مبارکہ کے درمیان بے ہوش پڑا رہتا تھا۔‘‘ شارحین نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدو رفت اسی مقام پر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے اصحاب رضی الله عنہم پر کمال درجے کی رحمت اور شفقت فرماتے تھے، لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حال میں بھوکا پڑا ہوا دیکھتے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خود بنفس نفیس زندگی مبارک اسی طرح عسرت کی تھی، اگر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی فراخی ہوتی، تو کبھی بھی سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں نہ رہنے دیتے۔ ٭ روایت میں واردجملہ فرحیہ ’’ بَخٍّ بَخٍ ‘‘ یعنی زہے زہے۔ یہ جملہ خوشحالی اور فرحت کے وقت کہا جاتا ہے اور تکرار، نشاط یعنی خوشی کے لیے ہے اس میں مبالغہ بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی واہ واہ سبحان اللہ ! ٭ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ گذرنے والا میری گردن پاؤں سے دباتا۔ ‘‘ عرب میں یہ بات کہی جاتی کہ کسی مرگی والے کو مرگی کا دورہ پڑتا تو اس کی گردن کے اعصاب کو زور زور سے دباتے تو اسے آ رام آجاتا، چنانچہ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی کیفیت کو بیان کیا ہے۔