شمائل ترمذی - حدیث 7

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَلْقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَلِيمَةَ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ إِذَا وَصَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ، لَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلَا بِالسَّبْطِ، كَانَ جَعْدًا رَجِلًا، وَلَمْ يَكُنْ بِالْمُطَهَّمِ وَلَا بِالْمُكَلْثَمِ، وَكَانَ فِي وَجْهِهِ تَدْوِيرٌ أَبْيَضُ مُشَرَبٌ، أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ، أَهْدَبُ الْأَشْفَارِ، جَلِيلُ الْمُشَاشِ وَالْكَتَدِ، أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ، شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ فِي صَبَبٍ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا، بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْرًا، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيكَةً، وَأَكْرَمُهُمْ عِشْرَةً، مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ، يَقُولُ نَاعِتُهُ: لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ الْحُسَيْنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ الْأَصْمَعِيَّ يَقُولُ فِي تَفْسِيرِ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُمَّغِطُ: الذَّاهِبُ طُولًا ". وَقَالَ: " سَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا يَقُولُ فِي كَلَامِهِ: تَمَغَّطَ فِي نَشَّابَتِهِ أَيْ مَدَّهَا مَدًّا شَدِيدًا. وَالْمُتَرَدِّدُ: الدَّاخِلُ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ قِصَرًا. وَأَمَّا الْقَطَطُ: فَالشَّدِيدُ الْجُعُودَةِ. وَالرَّجُلُ الَّذِي فِي شَعْرِهِ حُجُونَةٌ: أَيْ تَثَنٍّ قَلِيلٌ. وَأَمَّا الْمُطَهَّمُ فَالْبَادِنُ الْكَثِيرُ اللَّحْمِ. وَالْمُكَلْثَمُ: الْمُدَوَّرُ الْوَجْهِ. وَالْمُشَرَبُ: الَّذِي فِي بَيَاضِهِ حُمْرَةٌ. وَالْأَدْعَجُ: الشَّدِيدُ سَوَادِ الْعَيْنِ. وَالْأَهْدَبُ: الطَّوِيلُ الْأَشْفَارِ. وَالْكَتَدُ: مُجْتَمِعُ الْكَتِفَيْنِ وَهُوَ الْكَاهِلُ. وَالْمَسْرُبَةُ: هُوَ الشَّعْرُ الدَّقِيقُ الَّذِي كَأَنَّهُ قَضِيبٌ مِنَ الصَّدْرِ إِلَى السُّرَّةِ. وَالشَّثْنُ: الْغَلِيظُ الْأَصَابِعِ مِنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ. وَالتَّقَلُّعُ: أَنْ يَمْشِيَ بِقُوَّةٍ. وَالصَّبَبُ الْحُدُورُ، نَقُولُ: انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ وَصَبَبٍ. وَقَوْلُهُ: جَلِيلُ الْمُشَاشِ يُرِيدُ رُءُوسَ الْمَنَاكِبِ. وَالْعِشْرَةُ: الصُّحْبَةُ، وَالْعَشِيرُ: الصَّاحِبُ. وَالْبَدِيهَةُ: الْمُفَاجَأَةُ، يُقَالُ: بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ أَيْ فَجَأْتُهُ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 7

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان ’’ ابراہیم بن محمد جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے (پوتے) تھے بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے تو فرماتے کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قد نہ تو زیادہ لمبا تھا اور نہ ہی بالکل پست، بلکہ عام لوگوں کی طرح آپ کا قد درمیانہ تھا، آپ کے بال مبارک بہت زیادہ پیچ دار بھی نہیں تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے تھے بلکہ تھوڑے سے پیچ دار تھے، نہ آپ بھاری بھر کم تھے اور نہ ہی چہرہ بالکل گول تھا بلکہ تھوڑی سی گولائی تھی، آپ کا رنگ سفیدی سرخی مائل تھا، آنکھیں سیاہ اور پلکیں لمبی تھیں، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی مضبوط اور گوشت سے پُر تھیں، جسم پر ضرورت سے زیادہ بال نہ تھے، سینہ سے لے کر ناف تک بالوں کی باریک لکیر تھی، ہاتھ اور پاؤں موٹے اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے، جب آپ چلتے تو پوری قوت کے ساتھ چلتے گویا کہ نشیب کی طرف اُتررہے ہیں، جب آپ کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو اس کی طرف پورے دھیان کے ساتھ متوجہ ہوتے، آپ کے کندھوں کے درمیان مہرنبوت تھی کیونکہ آپ خاتم الانبیاء تھے، آپ تمام لوگوں سے زیادہ کشادہ دل اور تمام لوگوں سے زیادہ راست گو تھے، آپ سب سے زیادہ نرم خو تھے، تمام لوگوں سے زیادہ ملنسار تھے، جو آپ کو اچانک دیکھتا مرعوب ہوجاتا، اور جو پہچانتے ہوئے ملتا وہ آپ سے محبت کرتا، آپ کی صفت بیان کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں نے آپ (کی وفات) سے قبل بھی اور بعد میں بھی آپ جیسا کوئی انسان نہیں دیکھا۔ ‘‘امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے ابوجعفر محمد بن حسین سے سنا، وہ فرماتے ہیں میں نے اصمعی سے سنا، وہ صفةالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آمدہ الفاظ کی تفسیر فرمارہے تھے کہ اَلْمُمَّغِطُ کا معنی ہے جو لمبائی میں بڑہتا چلا جائے، اور میں نے ایک اعرابی سے سنا وہ اپنے کلام میں کہہ رہا تھا: ’’ تَمَغَّطَ فِیْ نُشَّابَتِهِ ‘‘ یعنی اس نے اپنا تیر بہت لمبا کردیا، اور اَلْمُتَرَدَّدُ کا معنی ہے چھوٹا اور کم ہو کر اور سکڑ کر ایک دوسرے میں داخل ہونے والا، اور اَلْقَطِطُ کا معنی ہے بہت زیادہ گھنگھریالے بالوں والا ہونا، اور اَلرَّجِلُ اس کو کہتے ہیں جس کے بال کچھ مڑے ہوئے ہوں اور اَلْمُطَہَّمُ موٹے بدن اور زیادہ گوشت والے کو کہتے ہیں اور اَلْمُکَلْثَمُ گول چہرے والے کو، اور اَلْمَشْرَبُ جس کی آنکھ بہت سیاہ ہو، اور اَلْأَہْدَبُ لمبی پلکوں والے کو، اور اَلْکَتِدُ دونوں کندھوں کے ملنے کی جگہ، جس کو کاہل بھی کہتے ہیں، اور اَلْمَسْرُبَۃُ ان بالوں کی لکیر کو کہتے ہیں جو سینہ سے ناف تک شاخ نما ہوتی ہے، اور اَلشَّثْنُ ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا موٹا ہونا، اور اَلتَّقَلُّعُ قوت کے ساتھ چلنا، اور اَلصَّبَبُ نیچے کی طرف اُترنا، کہا جاتا ہے کہ ہم بلندی سے نیچے کی طرف اُترے، اور جَلِیْلُ الْمَشَاشِ سے مراد کندھوں کا سرا، اور اَلْعِشْرَةُ سے مراد صحبت اختیار کرنا، اور اَلْعَشِیْرُ سے مراد ساتھ، صحبت اختیار کرنے والا، اور اَلْبَدِیْهَةُ سے مراد اچانک پریشان کرنا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’ بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ ‘‘ میں نے اس کو اچانک پریشان کردیا۔
تخریج : سنن ترمذي، کتاب المناقب، حدیث نمبر: ۳۶۳۸، طبقات ابن سعد، ۱؍۴۱۰۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کی سند متصل نہیں ہے۔ ‘‘ امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ کہ منقطع ہونے کے باوجود امام ترمذی اس روایت کو کیسے حسن کہہ رہے ہیں جبکہ انقطاع کے علاوہ اس میں عمر بن عبداللہ مولیٰ غفرۃ بھی ہے اور وہ ضعیف ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’ تقریب التہذیب ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ ‘‘ لہٰذا یہ حدیث ضعیف ہے، ایک تو اس میں انقطاع ہے اور دوسری علت یہ ہے کہ اس میں مولیٰ غفرۃ ضعیف ہے۔