شمائل ترمذی - حدیث 69

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ،حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ جُبَّةً رُومِيَّةً ضَيِّقَةَ الْكُمَّيْنِ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 69

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے لباس کا بیان ’’ عروہ بن مغیرۃ بن شعبہ اپنے والد محترم سیدنا مغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جُبّہ پہنا، جس کی دونوں آستینیں تنگ تھیں۔ ‘‘
تشریح : یہ رومی جبہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنا تھا تو سیدنا مغیرہ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جیسا کہ مسند احمد بن حنبل اور سنن ابی داؤد میں مذکور ہے۔ نیز یہ مذکور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے۔ (صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب (۸۲)، حدیث:۴۴۲۱۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب تقدیم الجماعة من یصلي بهم، حدیث:۱۰۵؍۲۷۴۔) اس حدیث کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ کفار کے کپڑوں سے نفع حاصل کرنا، جبکہ ان کی نجاست متحقق اور ثابت نہ ہو، جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جبہ پہن لیا اور اس کی تفصیل دریافت نہیں فرمائی۔ اکثر روایات میں رومی کی بجائے شامی جُبہ کے الفاظ ہیں، یعنی یہ جبہ شام کا بنا ہوا تھا۔ لیکن اس میں کوئی تناقض نہیں ہے کیونکہ شام ان ایام میں روم کا علاقہ تھا اور قیصرِ روم کا حکم وہاں بھی نافذ تھا۔ باب ما جا ء في لباس رسول الله صلى الله عليه وسلم مکمل ہوا۔ والحمد لله علی ذٰلك۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب لبس جبة ضیقة الکمین فی السفر (۱۰ ؍ ۵۷۹۹) وکتاب الصلوة (۱ ؍ ۳۶۳)، صحیح مسلم، کتاب الطهارة (۱ ؍ ۷۷ برقم: ۲۲۹)، سنن أبي داؤد، کتاب الطهارة (۱ ؍ ۱۵۱)، سنن نسائي، کتاب الطهارة (۱ ؍ ۲۸)، مسند أحمد بن حنبل (۱ ؍ ۲۹، ۴۴)، جامع الترمذي أبواب اللباس (۴ ؍ ۱۷۶۸) وقال حدیث حسن صحیح۔ یہ رومی جبہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنا تھا تو سیدنا مغیرہ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جیسا کہ مسند احمد بن حنبل اور سنن ابی داؤد میں مذکور ہے۔ نیز یہ مذکور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے۔ (صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب (۸۲)، حدیث:۴۴۲۱۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب تقدیم الجماعة من یصلي بهم، حدیث:۱۰۵؍۲۷۴۔) اس حدیث کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ کفار کے کپڑوں سے نفع حاصل کرنا، جبکہ ان کی نجاست متحقق اور ثابت نہ ہو، جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جبہ پہن لیا اور اس کی تفصیل دریافت نہیں فرمائی۔ اکثر روایات میں رومی کی بجائے شامی جُبہ کے الفاظ ہیں، یعنی یہ جبہ شام کا بنا ہوا تھا۔ لیکن اس میں کوئی تناقض نہیں ہے کیونکہ شام ان ایام میں روم کا علاقہ تھا اور قیصرِ روم کا حکم وہاں بھی نافذ تھا۔ باب ما جا ء في لباس رسول الله صلى الله عليه وسلم مکمل ہوا۔ والحمد لله علی ذٰلك۔