كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ،حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ((كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهُ الْقَمِيصُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے لباس کا بیان
’’ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے محبوب لباس قمیص پہننا تھا۔ ‘‘
تشریح :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قمیص کو پسند کرنا اور اسے محبوب رکھنا شاید اس وجہ سے ہو کہ وہ اعضائے جسمانی کے لیے بہ نسبت تہبند اور چادر کے زیادہ ڈھانپنے والی اور پردہ دار ہوتی ہے۔ نیز اس میں کم مشقت پڑتی ہے اور بدن پر ہلکی محسوس ہوتی ہے اور اس کے پہننے میں تواضع ہے، یہی بات علامہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ میں کہی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الأوطار میں فرماتے ہیں کہ: اس حدیث سے قمیص پہننے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ زیادہ محبوب اس لیے تھی کہ یہ تہبند اور چادر سے زیادہ ساتر ہوتی ہے۔ اور یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ قمیص ستر کو بھی ڈھانپتی ہے او ر جسم کے ساتھ بھی ملی ہوتی ہے اس لیے یہ جسم کا شعار ہے اور اوپر والے کپڑے کو دثار کہتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو چیز جسم کے قریب ہو وہ دور والی چیز کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ کو شعار سے تشبیہ دی اور ان کے غیر کو دثار سے تشبیہ دی۔ (صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب غزوة الطائف، حدیث:۴۳۳۰۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب اعطاء المؤلفة قلوبهم، حدیث:۱۰۶۱۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قمیص کو پسند کرنا اور اسے محبوب رکھنا شاید اس وجہ سے ہو کہ وہ اعضائے جسمانی کے لیے بہ نسبت تہبند اور چادر کے زیادہ ڈھانپنے والی اور پردہ دار ہوتی ہے۔ نیز اس میں کم مشقت پڑتی ہے اور بدن پر ہلکی محسوس ہوتی ہے اور اس کے پہننے میں تواضع ہے، یہی بات علامہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ میں کہی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الأوطار میں فرماتے ہیں کہ: اس حدیث سے قمیص پہننے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ زیادہ محبوب اس لیے تھی کہ یہ تہبند اور چادر سے زیادہ ساتر ہوتی ہے۔ اور یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ قمیص ستر کو بھی ڈھانپتی ہے او ر جسم کے ساتھ بھی ملی ہوتی ہے اس لیے یہ جسم کا شعار ہے اور اوپر والے کپڑے کو دثار کہتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو چیز جسم کے قریب ہو وہ دور والی چیز کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ کو شعار سے تشبیہ دی اور ان کے غیر کو دثار سے تشبیہ دی۔ (صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب غزوة الطائف، حدیث:۴۳۳۰۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب اعطاء المؤلفة قلوبهم، حدیث:۱۰۶۱۔)