شمائل ترمذی - حدیث 53

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي كُحْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((عَلَيْكُمْ بِالْإِثْمِدِ، فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ، وَيُنْبِتُ الشَّعْرَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 53

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمہ لگانا ’’ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اثمد سرمہ کو لازم پکڑو کیونکہ وہ نظر کو تیز کرتا ہے اور (پلکوں کے ) بال اُگاتا ہے۔ ‘‘
تشریح : مذکور ہ بالا تمام احادیث میں اثمد (اصفہانی) سرمہ استعمال کرنے کی ترغیب ہے اوراس کے فوائد کا ارشاد ہے۔ حضرات علماء و محققین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کی روشنی میں فرمایا ہے کہ ہر طرح کا سرمہ استعمال کرنا مستحب ہے جو کہ نظرتیز کرے، جبکہ اثمد سرمہ کا استعمال افضل ہے۔ باب ما جا ء في کحل رسول اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ مستدرك حاکم (۴؍ ۹۲۰۷)، سنن ابن ماجة، کتاب الطب، باب الکحل بالاثمد (۲ ؍ ۳۴۹۵)، سنن ابن ماجة کے زوائد میں ہے کہ اس سند میں مقال ہے کیونکہ اس کا راوی عثمان بن عبدالملک، بقول امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ منکر الحدیث‘‘ ہے، جبکہ امام بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لیس به بأس‘‘ اور ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے۔ اس سند کے باقی راوۃ ثقات ہیں۔ امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ روایت اپنی ماقبل روایات کی وجہ سے قوی ہوجاتی ہے، جیسا کہ میں نے سلسلة الأحادیث الصحیحۃ میں بیان کیا ہے۔ مذکور ہ بالا تمام احادیث میں اثمد (اصفہانی) سرمہ استعمال کرنے کی ترغیب ہے اوراس کے فوائد کا ارشاد ہے۔ حضرات علماء و محققین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کی روشنی میں فرمایا ہے کہ ہر طرح کا سرمہ استعمال کرنا مستحب ہے جو کہ نظرتیز کرے، جبکہ اثمد سرمہ کا استعمال افضل ہے۔ باب ما جا ء في کحل رسول اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔