كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خِضَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: ((رَأَيْتُ شَعْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْضُوبًا)) قَالَ حَمَّادٌ: وَأَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ قَالَ: ((رَأَيْتُ شَعْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ مَخْضُوبًا))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مبارک بالوں کو خضاب لگانے کا بیان
’’ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک دیکھے جو کہ رنگے ہوئے تھے۔ حماد کہتے ہیں ہمیں عبداللہ بن محمد بن عقیل نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ ہوئے بال مبارک سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس دیکھے۔ ‘‘
تشریح :
مذکور ہ بالا روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک رنگے ہوئے تھے، جبکہ صحیح مسلم کی روایت جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب استعمال نہیں فرمایا، جیسا کہ ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب لگایا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک اس حالت کو پہنچے ہی نہیں تھے کہ انہیں خضاب لگایا جاتا،( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شیبة صلى الله علیه وسلم، حدیث:۱۰۰؍۲۳۴۱۔) یعنی بہت کم بال ایسے تھے جو سفید تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک خضاب کی مقدار کو نہیں پہنچے تھے۔(صحیح مسلم، کتاب حدیث:۱۰۴؍۲۳۴۱۔ صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، حدیث:۵۸۹۴۔)
نیزفرماتے ہیں : کہ اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے سفید بال گننا چاہتا تو گن سکتا تھا، وہ صرف چند بال تھے۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شیبة صلى الله علیه وسلم، حدیث:۱۰۳؍۲۳۴۱۔)
دونوں طرح کی روایات کو دیکھتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ کی تطبیق مناسب معلوم ہو تی ہے، وہ فرماتے ہیں : پسندیدہ بات یہ ہے کہ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالوں کو رنگا ہے، اکثر اوقات نہیں رنگے تو جس نے جو کچھ دیکھا وہ بیان کردیا اور یہ تاویل زیادہ مناسب ہے کیونکہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت صحیحین میں ہے، (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب النعال السبتیة وغیرها، حدیث:۵۸۵۱۔ صحیح مسلم، کتاب الحج باب بیان أن الأفضل أن یحرم...، حدیث:۱۱۸۷۔) اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو رنگنے کے متعلق سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کا انکار اور نفی کرنا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مخالف ہے، اسی طرح جو اس کے معنی میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنا ء اور کتم سے رنگا ہے، اس کے خلاف ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نفی کرنے والے پر اثبات کرنے والے کو ترجیح ہوتی ہے، کیونکہ اس میں علم کی زیادتی ہوتی ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے جیسا کہ اصول میں یہ بات مقرر ہے۔ لہٰذا امام نووی رحمہ اللہ کی تطبیق و جمع کا اعتبار کرنا انسب اور أصح ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس طرح فتح الباری میں ذکر کیا ہے اور اس طرح حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ’’ البدایہ والنھایہ ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔
ہمارے نزدیک امام نووی رحمہ اللہ کی جمع و تطبیق میں اگر اس بات کا اضافہ کیا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کا رنگ خوشبو کی وجہ سے سیاہی کی بجائے سرخی مائل ہوگیا تھا تویہ زیادہ قرین قیاس ہے اور اس سے دلائل متناقضہ کے درمیان جمع و تطبیق میں آسانی معلوم ہوتی ہے۔ والله اعلم بالصواب۔
تخریج :
امام ترمذی رحمہ اللہ یہ روایت بیان کرنے میں متفرد ہیں، سند کے لحاظ سے یہ روایت حسن ہے، کیونکہ عمرو بن عاصم صدوق ثقہ ہیں اور دوسری سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل صدوق ہیں، انہیں امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ اور دوسرے کئی محدثین نے ’’لین الحدیث‘‘ کہا ہے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ’’صدوق‘‘ قرار دیا ہے اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں اسے قابل حجت نہیں سمجھتا۔ جبکہ امام احمد رحمہ اللہ اور امام اسحاق رحمہ اللہ اسے قابل حجت سمجھتے ہیں۔
مذکور ہ بالا روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک رنگے ہوئے تھے، جبکہ صحیح مسلم کی روایت جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب استعمال نہیں فرمایا، جیسا کہ ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب لگایا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک اس حالت کو پہنچے ہی نہیں تھے کہ انہیں خضاب لگایا جاتا،( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شیبة صلى الله علیه وسلم، حدیث:۱۰۰؍۲۳۴۱۔) یعنی بہت کم بال ایسے تھے جو سفید تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک خضاب کی مقدار کو نہیں پہنچے تھے۔(صحیح مسلم، کتاب حدیث:۱۰۴؍۲۳۴۱۔ صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، حدیث:۵۸۹۴۔)
نیزفرماتے ہیں : کہ اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے سفید بال گننا چاہتا تو گن سکتا تھا، وہ صرف چند بال تھے۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شیبة صلى الله علیه وسلم، حدیث:۱۰۳؍۲۳۴۱۔)
دونوں طرح کی روایات کو دیکھتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ کی تطبیق مناسب معلوم ہو تی ہے، وہ فرماتے ہیں : پسندیدہ بات یہ ہے کہ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالوں کو رنگا ہے، اکثر اوقات نہیں رنگے تو جس نے جو کچھ دیکھا وہ بیان کردیا اور یہ تاویل زیادہ مناسب ہے کیونکہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت صحیحین میں ہے، (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب النعال السبتیة وغیرها، حدیث:۵۸۵۱۔ صحیح مسلم، کتاب الحج باب بیان أن الأفضل أن یحرم...، حدیث:۱۱۸۷۔) اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو رنگنے کے متعلق سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کا انکار اور نفی کرنا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مخالف ہے، اسی طرح جو اس کے معنی میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنا ء اور کتم سے رنگا ہے، اس کے خلاف ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نفی کرنے والے پر اثبات کرنے والے کو ترجیح ہوتی ہے، کیونکہ اس میں علم کی زیادتی ہوتی ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے جیسا کہ اصول میں یہ بات مقرر ہے۔ لہٰذا امام نووی رحمہ اللہ کی تطبیق و جمع کا اعتبار کرنا انسب اور أصح ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس طرح فتح الباری میں ذکر کیا ہے اور اس طرح حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ’’ البدایہ والنھایہ ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔
ہمارے نزدیک امام نووی رحمہ اللہ کی جمع و تطبیق میں اگر اس بات کا اضافہ کیا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کا رنگ خوشبو کی وجہ سے سیاہی کی بجائے سرخی مائل ہوگیا تھا تویہ زیادہ قرین قیاس ہے اور اس سے دلائل متناقضہ کے درمیان جمع و تطبیق میں آسانی معلوم ہوتی ہے۔ والله اعلم بالصواب۔