شمائل ترمذی - حدیث 45

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خِضَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنِ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو رِمْثَةَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ ابْنٍ لِي، فَقَالَ: ((ابْنُكَ هَذَا؟)) فَقُلْتُ: نَعَمْ أَشْهَدُ بِهِ، قَالَ: ((لَا يَجْنِي عَلَيْكَ، وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ)) قَالَ: وَرَأَيْتُ الشَّيْبَ أَحْمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَى: " هَذَا أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ، وَأَفْسَرُ؛ لِأَنَّ الرُّوَايَاتِ الصَّحِيحَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَبْلُغِ الشَّيْبَ. وَأَبُو رِمْثَةَ اسْمُهُ: رِفَاعَةُ بْنُ يَثْرِبِيٍّ التَّيْمِيُّ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 45

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مبارک بالوں کو خضاب لگانے کا بیان ’’ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کے ہمراہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ تیرا لڑکا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں ! اور میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے بیٹے کے قصور کا تجھ سے، اور تیرے قصور کا تیرے بیٹے سے مواخذ نہ ہوگا۔ ابورمثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند موئے مبارک کو مائل بسرخ دیکھا۔ ‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس باب میں یہ سب سے صحیح روایت ہے۔ اور واضح ہے اس لیے کہ صحیح روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے کو نہیں پہنچے تھے اور ابو رمثہ کا نام رفاعہ بن یثرمی التیمی رضی اللہ عنہ ہے۔
تشریح : جاھلی دور میں عربوں کا عام طریقہ تھا کہ اگر باپ کسی قصور یا جرم کا مرتکب ہوتا، تو اس کا بیٹا اس کے جرم میں پکڑلیا جاتا، اور اسی طرح اگر بیٹا کسی قصور یا جرم کا ارتکاب کرتا، تو اس کا باپ اس کے بدلے میں پکڑا جاتا، چنانچہ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات اسی نکتہ نظر سے عرض کی، کہ یہ میرا اپنا صلبی بیٹا ہے، اگر مجھ سے کوئی جرم یا قصور سر زد ہو جائے تو عربوں کے عام طریقے کے مطابق میرے اس لڑکے سے ہی بدلہ پورا ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے اس ظالمانہ طریق کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ تیرے بیٹے کے قصور کا تجھ سے، اور تیرے قصور کا تیرے بیٹے سے، مؤاخذہ نہ ہوگا۔ ‘‘ بلکہ اسلا م میں یہ ہے کہ جو جرم کرے گا وہی قابل سزا و تعزیر ہے۔ جیسا کہ ارشاد بار تعالیٰ ہے۔ ﴿لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ أُخْرٰی﴾’’کوئی شخص دوسرے کے بوجھ کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ‘‘ گویا دور جاہلیت کے اس اصول کو اسلام نے ختم فرمادیا۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن أبي داود، کتاب الترجل (۴ ؍ ۴۲۰۸، ۴۴۹۵)، سنن نسائي، کتاب القسامة (۸ ؍ ۵۳)، مسند أحمد بن حنبل (۴ ؍ ۱۶۳)۔ جاھلی دور میں عربوں کا عام طریقہ تھا کہ اگر باپ کسی قصور یا جرم کا مرتکب ہوتا، تو اس کا بیٹا اس کے جرم میں پکڑلیا جاتا، اور اسی طرح اگر بیٹا کسی قصور یا جرم کا ارتکاب کرتا، تو اس کا باپ اس کے بدلے میں پکڑا جاتا، چنانچہ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات اسی نکتہ نظر سے عرض کی، کہ یہ میرا اپنا صلبی بیٹا ہے، اگر مجھ سے کوئی جرم یا قصور سر زد ہو جائے تو عربوں کے عام طریقے کے مطابق میرے اس لڑکے سے ہی بدلہ پورا ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے اس ظالمانہ طریق کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ تیرے بیٹے کے قصور کا تجھ سے، اور تیرے قصور کا تیرے بیٹے سے، مؤاخذہ نہ ہوگا۔ ‘‘ بلکہ اسلا م میں یہ ہے کہ جو جرم کرے گا وہی قابل سزا و تعزیر ہے۔ جیسا کہ ارشاد بار تعالیٰ ہے۔ ﴿لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ أُخْرٰی﴾’’کوئی شخص دوسرے کے بوجھ کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ‘‘ گویا دور جاہلیت کے اس اصول کو اسلام نے ختم فرمادیا۔