شمائل ترمذی - حدیث 43

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي شَيْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ الْعِجْلِيِّ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ التَّيْمِيِّ، تَيْمِ الرَّبَابِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي ابْنٌ لِي، قَالَ: فَأَرَيْتُهُ، فَقُلْتُ لَمَّا رَأَيْتُهُ: ((هَذَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ، وَلَهُ شَعْرٌ قَدْ عَلَاهُ الشَّيْبُ، وَشَيْبُهُ أَحْمَرُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 43

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید بالوں کا بیان ’’ سیدنا ابو رمثہ تیمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میرا ایک بیٹا بھی میرے ساتھ تھا۔ ابورمثہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت کروائی گئی، پس جس وقت میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو فوراً کہہ اٹھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دوسبز رنگ کے کپڑے زیب تن فرمائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند موئے مبارک پربڑھاپے کے آثار کا غلبہ تھا اور بڑھاپے کی علامت سرخ بال مبارک تھے۔ ‘‘
تشریح : حدیث الباب میں سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت کروائی گئی گویا ابورمثہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نہیں دیکھا ہوا تھا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرلیا تو آپ کے چہرۂ انور کو دیکھتے ہی پکار اٹھے کہ ’’ یہی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ ‘‘ شمائل کی شرح جمع الوسائل، صفحہ ۹۵ میں ہے کہ: ((وَمَعْنَاهُ عَلِمْتُ یقیناً أَنَّهُ نَبِيُّ اللّٰهِ مِنْ نُوْرِ جَمَالِهِ الْعَلِيِّ وَظُهُوْرِ کَمَالِهِ الْجَلِيِّ حَیْثُ لَا یَحْتَاجُ إِلٰی إِظْهَارِ مُعْجَزَةٍ وَإِتْیَانِ بُرْهَانٍ وَمَحَجَّةٍ۔)) ’’ کہ ابورمثہ کے قول کا معنی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کی تابناکی و اکملیت سے پہچان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہیں اور ایسے پہچانا کہ کسی معجزے کے اظہار یا کسی دلیل و حجت کی ضرورت نہ رہی۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبز کپڑے پہن رکھے تھے۔ گویا یہ جنتیوں کا لباس ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَیَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا﴾ ’’ کہ اہل جنت سبز لباس پہنے ہوئے ہوں گے۔ ‘‘ راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند موئے مبارک پر پڑھاپے کا غلبہ تھا۔ شَعْرٌ پر جو تنوین ہے یہ تقلیل کے لیے ہے، اسی لیے ترجمہ میں ’’ چند موئے مبارک ‘‘ لکھا گیا ہے۔ بالوں کی کیفیت بارے سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ’’ بڑھاپے کی علامت سرخ بال تھے۔ ‘‘ یعنی چند بال مبارک سرخی مائل تھے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جو بال سفید ہونے لگیں وہ پہلے سیاہی سے سنہرا پن اختیار کرتے ہیں، پھر سفید ہو جاتے ہیں۔ شمائل ترمذی کے شارح علامہ محمد عاقل صاحب لاہوری لکھتے ہیں کہ: ’’ ان بالوں کی سفیدی مائل سرخی تھی اور یہ سرخی خضاب کی نہیں تھی بلکہ بالوں کے رنگ تبدیل کرنے کی عادت ہی ایسی ہے کہ جب سفید ہو نے لگتے ہیں تو پہلے سرخی مائل ہو تے ہیں پھرسفید ہو جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ ‘‘
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ جامع ترمذي، کتاب الأدب، باب في ثوب الأخضر (۵ ؍ ۲۸۱۲) وقال حدیث حسن غریب۔ سنن أبي داود، کتاب اللباس (۴ ؍ ۴۰۶۵) وکتاب الترجل (۴ ؍ ۴۲۰۶)، سنن نسائي، کتاب الزینة (۸ ؍ ۲۰۴)، مسند احمد بن حنبل (۲ ؍ ۲۲۷، ۲۲۸ اور ۴ ؍ ۱۶۳)، مستدرك حاکم (۲ ؍ ۶۰۷)، دلائل النبوة (۱ ؍ ۲۳۷)۔ حدیث الباب میں سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت کروائی گئی گویا ابورمثہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نہیں دیکھا ہوا تھا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرلیا تو آپ کے چہرۂ انور کو دیکھتے ہی پکار اٹھے کہ ’’ یہی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ ‘‘ شمائل کی شرح جمع الوسائل، صفحہ ۹۵ میں ہے کہ: ((وَمَعْنَاهُ عَلِمْتُ یقیناً أَنَّهُ نَبِيُّ اللّٰهِ مِنْ نُوْرِ جَمَالِهِ الْعَلِيِّ وَظُهُوْرِ کَمَالِهِ الْجَلِيِّ حَیْثُ لَا یَحْتَاجُ إِلٰی إِظْهَارِ مُعْجَزَةٍ وَإِتْیَانِ بُرْهَانٍ وَمَحَجَّةٍ۔)) ’’ کہ ابورمثہ کے قول کا معنی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کی تابناکی و اکملیت سے پہچان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہیں اور ایسے پہچانا کہ کسی معجزے کے اظہار یا کسی دلیل و حجت کی ضرورت نہ رہی۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبز کپڑے پہن رکھے تھے۔ گویا یہ جنتیوں کا لباس ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَیَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا﴾ ’’ کہ اہل جنت سبز لباس پہنے ہوئے ہوں گے۔ ‘‘ راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند موئے مبارک پر پڑھاپے کا غلبہ تھا۔ شَعْرٌ پر جو تنوین ہے یہ تقلیل کے لیے ہے، اسی لیے ترجمہ میں ’’ چند موئے مبارک ‘‘ لکھا گیا ہے۔ بالوں کی کیفیت بارے سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ’’ بڑھاپے کی علامت سرخ بال تھے۔ ‘‘ یعنی چند بال مبارک سرخی مائل تھے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جو بال سفید ہونے لگیں وہ پہلے سیاہی سے سنہرا پن اختیار کرتے ہیں، پھر سفید ہو جاتے ہیں۔ شمائل ترمذی کے شارح علامہ محمد عاقل صاحب لاہوری لکھتے ہیں کہ: ’’ ان بالوں کی سفیدی مائل سرخی تھی اور یہ سرخی خضاب کی نہیں تھی بلکہ بالوں کے رنگ تبدیل کرنے کی عادت ہی ایسی ہے کہ جب سفید ہو نے لگتے ہیں تو پہلے سرخی مائل ہو تے ہیں پھرسفید ہو جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ ‘‘