شمائل ترمذی - حدیث 400

كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ،حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عُمَرَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَطَلْحَةُ، وَسَعْدٌ، وَجَاءَ عَلِيٌّ، وَالْعَبَّاسُ، يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عُمَرُ: أَنْشُدُكُمْ بِالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ)) فَقَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 400

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کابیان ’’مالک بن اوس بن حدثان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو وہاں سیدنا عبدالرحمان بن عوف، سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد رضی الله عنہم بھی آگئے۔اتنے میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بھی آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے وہاں پہنچے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: ’’میں تمہیں اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم (انبیاء کی جماعت) کسی کو وارث نہیں بناتے، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ ان حضرات نے جواب دیا، جی ہاں۔ اس حدیث میں ایک لمبا قصہ بھی مذکور ہے۔
تشریح : یہ مضمون گذشتہ احادیث میں بھی بیان ہو چکا ہے امام ترمذی رحمہ اللہ نے جس طویل واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ صحیحین میں موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی الله عنہما، بنی نضیر کا جو مالِ فے تھا اس کے بارے میں امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جھگڑا لے کر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر کبار اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلا لیا، گفتگو شروع ہوئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہماآپس میں جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے لگے۔ جن اصحاب کو امیر المومنین نے بلایا تھا وہ کہنے لگے: امیر المومنین ان کے درمیان آپ خود فیصلہ فرما دیجیے اور روز روز کا جھگڑا ختم کر دیجیے۔ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث بیان کی جو متن میں ہے۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کو اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص کیا تھا اور کسی ایک کو نہیں دیا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال میں سے اپنے اہل خانہ کے لیے سال بھر کا خرچہ رکھتے اور جو باقی بچتا اسے فی سبیل اللہ کے لیے جمع کر دیتے۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور انہوں نے بھی ایسے ہی کیا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ پھر سیدنا عمر رضى الله عنہ، علی اور عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا: ہاں درست ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا: پھر جب میرا دور آیا تو میں نے بھی وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔ پھر تم دونوں میرے پاس آئے، تم دونوں کی بات ایک ہی تھی کہ وہ مال ہمارے حوالہ کیا جائے تو میں نے تمہیں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ہمارے ترکہ تقسیم نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ پھر میں نے مناسب سمجھا کہ وہ مال تمہارے حوالے کر دوں تو میں نے تمہیں پوچھا تھا: کیا اگر میں اس مال کو تمہارے سپرد کر دوں تو تم بھی اسی طرح کرو گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے آئے ہیں اور میں کر رہا ہوں ؟ تو تم نے کہا تھا: ٹھیک ہے ہمارے حوالے کر دو۔ تو میں نے وہ مال تمہارے حوالے کر دیا تھا۔ اب پھر تم میرے پاس جھگڑا لے آئے ہو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں میں تا قیامت اس کے علاوہ کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر تم اس مال کی تولیت سے عاجز آگئے ہو تو مال میرے حوالے کر دو۔ میں خود ہی اس کا انتظام و انصرام کر لوں گا۔ (صحیح بخاري، کتاب فرض الخمس، باب فرض الخمس، حدیث:۳۰۹۴۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفيء، حدیث:۱۷۵۷۔)
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الجهاد (۶؍۲۹۰۴) وکتاب المغازي باب حدیث بني النضیر (۴۰۳۳) مطولا وصحیح مسلم، کتاب الجهاد والسیر، باب حدیث بني النضیر حکم الفيء (۳؍۴۹ برقم ۱۳۷۹،۷۷۱۳)۔ یہ مضمون گذشتہ احادیث میں بھی بیان ہو چکا ہے امام ترمذی رحمہ اللہ نے جس طویل واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ صحیحین میں موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی الله عنہما، بنی نضیر کا جو مالِ فے تھا اس کے بارے میں امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جھگڑا لے کر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر کبار اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلا لیا، گفتگو شروع ہوئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہماآپس میں جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے لگے۔ جن اصحاب کو امیر المومنین نے بلایا تھا وہ کہنے لگے: امیر المومنین ان کے درمیان آپ خود فیصلہ فرما دیجیے اور روز روز کا جھگڑا ختم کر دیجیے۔ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث بیان کی جو متن میں ہے۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کو اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص کیا تھا اور کسی ایک کو نہیں دیا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال میں سے اپنے اہل خانہ کے لیے سال بھر کا خرچہ رکھتے اور جو باقی بچتا اسے فی سبیل اللہ کے لیے جمع کر دیتے۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور انہوں نے بھی ایسے ہی کیا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ پھر سیدنا عمر رضى الله عنہ، علی اور عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا: ہاں درست ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا: پھر جب میرا دور آیا تو میں نے بھی وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔ پھر تم دونوں میرے پاس آئے، تم دونوں کی بات ایک ہی تھی کہ وہ مال ہمارے حوالہ کیا جائے تو میں نے تمہیں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ہمارے ترکہ تقسیم نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ پھر میں نے مناسب سمجھا کہ وہ مال تمہارے حوالے کر دوں تو میں نے تمہیں پوچھا تھا: کیا اگر میں اس مال کو تمہارے سپرد کر دوں تو تم بھی اسی طرح کرو گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے آئے ہیں اور میں کر رہا ہوں ؟ تو تم نے کہا تھا: ٹھیک ہے ہمارے حوالے کر دو۔ تو میں نے وہ مال تمہارے حوالے کر دیا تھا۔ اب پھر تم میرے پاس جھگڑا لے آئے ہو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں میں تا قیامت اس کے علاوہ کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر تم اس مال کی تولیت سے عاجز آگئے ہو تو مال میرے حوالے کر دو۔ میں خود ہی اس کا انتظام و انصرام کر لوں گا۔ (صحیح بخاري، کتاب فرض الخمس، باب فرض الخمس، حدیث:۳۰۹۴۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفيء، حدیث:۱۷۵۷۔)