شمائل ترمذی - حدیث 397

كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، أَنَّ الْعَبَّاسَ، وَعَلِيًّا، جَاءَا إِلَى عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ يَقُولُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَنْتَ كَذَا، أَنْتَ كَذَا، فَقَالَ عُمَرُ، لِطَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدٍ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَسَمِعْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((كُلُّ مَالِ نَبِيٍّ صَدَقَةٌ، إِلَّا مَا أَطْعَمَهُ، إِنَّا لَا نُورَثُ؟)) وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 397

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کابیان ’’ابو البختری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ دونوں اپنا جھگڑا لے کر امیر المومنین سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، دونوں ہی ایک دوسرے پر الزام لگا رہے تھے کہ تو ایسا ہے تو ایسا ہے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد رضی اللہ عنہم سے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ’’نبی کا تمام مال صدقہ ہوتا ہے مگر وہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل کو کھلا دیا۔ یقیناً ہم کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے۔ اس حدیث میں ایک لمبا واقعہ بھی ہے۔‘‘
تشریح : حدیث الباب میں اس تنازعہ کا تذکرہ ہے جو سیدنا عباس اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہماکے درمیان زمین اور باغات کی تولیت کے بارے میں تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں حضرات کو ان اموال کی تولیت سپرد کی تھی جن اموال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ طیبہ میں اپنے اہل خانہ کے لیے، مساکین اور غرباء کے لیے توشہ حاصل کرتے تھے۔ تاہم ان حضرات کے مزاج مختلف ہونے کی وجہ سے اس زمین پر باغات سے حاصل ہونے والی آمدنی کے خرچ کرنے بارے دونوں کا اختلاف رہتا تھا جس کا حدیث میں تذکرہ ہے۔ حدیث الباب میں جس لمبے واقعے کی طرف اشارہ ہے اس کی تفصیل پیش آمدہ روایات کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
تخریج : یہ روایت اپنے شواہد کے وجہ سے حسن ہے۔ شمائل کی سند میں انقطاع ہے۔ سنن أبي داود، کتاب الخراج (۳؍۲۹۷۵)، مسند أحمد بن حنبل (۱؍۴)۔ حدیث الباب میں اس تنازعہ کا تذکرہ ہے جو سیدنا عباس اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہماکے درمیان زمین اور باغات کی تولیت کے بارے میں تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں حضرات کو ان اموال کی تولیت سپرد کی تھی جن اموال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ طیبہ میں اپنے اہل خانہ کے لیے، مساکین اور غرباء کے لیے توشہ حاصل کرتے تھے۔ تاہم ان حضرات کے مزاج مختلف ہونے کی وجہ سے اس زمین پر باغات سے حاصل ہونے والی آمدنی کے خرچ کرنے بارے دونوں کا اختلاف رہتا تھا جس کا حدیث میں تذکرہ ہے۔ حدیث الباب میں جس لمبے واقعے کی طرف اشارہ ہے اس کی تفصیل پیش آمدہ روایات کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔