كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ: مَنْ يَرِثُكَ؟ فَقَالَ: أَهْلِي وَوَلَدِي، فَقَالَتْ: مَا لِي لَا أَرِثُ أَبِي؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((لَا نُورَثُ)) ، وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُولُهُ، وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کابیان
’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائیں اور فرمانے لگیں : آپ کا وارث کون بنے گا؟ انہوں نے فرمایا: میرے اہل اور اولاد۔ فرمانے لگیں : تو پھر میں اپنے باپ کی وراث کیوں نہیں ؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔‘‘ لیکن میں ان کی کفالت کروں گا جن کی کفالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ اور میں اس پرخرچ کروں گا جس پر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے۔‘‘
تشریح :
انبیاء کی وراثتِ مالی اس لیے ختم کی گئی تاکہ ان کے ورثاء ان کے مرنے کی تمنا نہ کریں۔ اور تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ انبیاء دنیا کے دلدادہ ہیں اور مال جمع کرتے ہیں، نیز تاکہ دیگر لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی مال جمع نہ کرنے لگیں۔ نیز کہیں لوگ یہ بھی نہ سمجھنے لگیں کہ انبیاء کا فقر اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سمجھتیں تھیں کہ انبیاء علیہم السلام کا معاملہ بھی دیگر لوگوں کی طرح ہی ہے اور وہ انبیاء کے اس عمومی حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تخصیص سمجھتی تھیں انہوں نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زمین سے منافع کا یہی حکم ہے کہ اسے تقسیم کیا جائے۔ بلکہ ان کا ارادہ تھا کہ وراثت کے مسئلہ میں انبیاء اور غیر انبیاء کا حکم آیات و احادیث کے مطلق ہونے کی وجہ سے ایک ہی ہے۔ تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا کہ عمومی حکم سے انبیاء کا حکم مستثنیٰ ہے۔
تخریج :
یہ حدیث دیگر طرق کے ساتھ صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب السیر، باب في ترکة رسول الله صلى الله عليه وسلم (۴؍۱۶۰۸)، مسند أحمد بن حنبل (۱؍۱۰)
انبیاء کی وراثتِ مالی اس لیے ختم کی گئی تاکہ ان کے ورثاء ان کے مرنے کی تمنا نہ کریں۔ اور تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ انبیاء دنیا کے دلدادہ ہیں اور مال جمع کرتے ہیں، نیز تاکہ دیگر لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی مال جمع نہ کرنے لگیں۔ نیز کہیں لوگ یہ بھی نہ سمجھنے لگیں کہ انبیاء کا فقر اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سمجھتیں تھیں کہ انبیاء علیہم السلام کا معاملہ بھی دیگر لوگوں کی طرح ہی ہے اور وہ انبیاء کے اس عمومی حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تخصیص سمجھتی تھیں انہوں نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زمین سے منافع کا یہی حکم ہے کہ اسے تقسیم کیا جائے۔ بلکہ ان کا ارادہ تھا کہ وراثت کے مسئلہ میں انبیاء اور غیر انبیاء کا حکم آیات و احادیث کے مطلق ہونے کی وجہ سے ایک ہی ہے۔ تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا کہ عمومی حکم سے انبیاء کا حکم مستثنیٰ ہے۔