شمائل ترمذی - حدیث 392

كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ فَأَفَاقَ، فَقَالَ: ((حَضَرَتِ الصَّلَاةُ)) ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ. فَقَالَ: ((مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ للنَّاسِ)) - أَوْ قَالَ: بِالنَّاسِ - قَالَ: ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ: ((حَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟)) فَقَالُوا: نَعَمْ. فَقَالَ: ((مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ)) ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، إِذَا قَامَ ذَلِكَ الْمَقَامَ بَكَى فَلَا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ قَالَ: ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ فَقَالَ: ((مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ أَوْ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ)) قَالَ: فَأُمِرَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ، وَأُمِرَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً، فَقَالَ: ((انْظُرُوا لِي مَنْ أَتَّكِئِ عَلَيْهِ)) ، فَجَاءَتْ بَرِيرَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَاتَّكَأَ عَلَيْهِمَا فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِينْكُصَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ يَثْبُتَ مَكَانَهُ، حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلَاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ إِلَا ضَرَبْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا قَالَ: وَكَانَ النَّاسُ أُمِّيِّينَ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ نَبِيٌّ قَبْلَهُ، فَأَمْسَكَ النَّاسُ، فَقَالُوا: يَا سَالِمُ، انْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَادْعُهُ، فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَأَتَيْتُهُ أَبْكِي دَهِشًا، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: أَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: إِنَّ عُمَرَ يَقُولُ: لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ إِلَا ضَرَبْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا، فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَجَاءَ هُوَ وَالنَّاسُ قَدْ دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْرِجُوا لِي، فَأَفْرَجُوا لَهُ فَجَاءَ حَتَّى أَكَبَّ عَلَيْهِ وَمَسَّهُ، فَقَالَ: ﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ﴾ [الزمر: 30] ثُمَّ قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَعَلِمُوا أَنْ قَدْ صَدَقَ، قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُصَلَّى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: وَكَيْفَ؟ قَالَ: يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ، ثُمَّ يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ، حَتَّى يَدْخُلَ النَّاسُ، قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُدْفَنُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: أَينَ؟ قَالَ: فِي الْمكَانِ الَّذِي قَبَضَ اللَّهُ فِيهِ رُوحَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَقْبِضْ رُوحَهُ إِلَا فِي مَكَانٍ طَيِّبٍ. فَعَلِمُوا أَنْ قَدْ صَدَقَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَغْسِلَهُ بَنُو أَبِيهِ وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ يَتَشَاوَرُونَ، فَقَالُوا: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوانِنَا مِنَ الْأَنْصَارِ نُدْخِلُهُمْ مَعَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَنْ لَهُ مِثْلُ هَذِهِ الثَّلَاثِ ﴿ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا﴾ [التوبة: 40] مَنْ هُمَا؟ قَالَ: ثُمَّ بَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ بَيْعَةً حَسَنَةً جَمِيلَةً

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 392

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کابیان ’’صحابی رسول سالم بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی بیماری میں غشی طاری ہو گئی جب افاقہ ہوا تو فرمایا: ’’کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟‘‘ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: ’’بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں،اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ جب ہوش میں آئے تو فرمایا: ’’کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟‘‘ عرض کیا گیا: جی ہاں۔ فرمایا: ’’بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہے اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر بیہوشی طاری ہو گئی اور جب افاقہ ہوا تو فرمایا: ’’کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟‘‘ عرض کیا گیا: جی ہاں۔ فرمایا: ’’بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہے اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض کرتی ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے والد رقیق القلب ہیں، جب وہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور نماز پڑھانے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ آپ کسی اور کو حکم فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر بے ہوشی طاری ہو گئی، جب افاقہ ہوا تو فرمایا: ’’بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہے اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تم تو ان عورتوں کی طرح ہو جو یوسف علیہ السلام کے ساتھ تھیں۔‘‘ چنانچہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تو انہوں نے اذان کہی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وجود میں کچھ افاقہ اور کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا: ’’کوئی آدمی دیکھو! جس پر میں ٹیک لگاؤں۔‘‘ تو بریرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ)اور دوسرا شخص آیا۔ آپ ان دونوں پر ٹیک لگا کر نکلے۔ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو واپس پیچھے مڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر ہی رہو۔ یہاں تک کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز پوری کر لی۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ’’جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے تو میں اپنی اس تلوار سے اس کی گردن اتار دوں گا۔‘‘ راوی بیان کرتا ہے کہ اکثر لوگ امی تھے اور اس سے پہلے ان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بات پر سب خاموش ہو گئے پھر بعض لوگوں نے سالم رضی اللہ عنہ کو کہا: جاؤ! اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کو بلا لاؤ۔ سالم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دہشت کے مارے روتا ہوا پہنچا وہ اس وقت مسجد میں تھے۔ جب انہوں نے مجھے آتے ہوئے دیکھا تو پوچھا، کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے؟ میں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے نہیں سننا چاہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ جو ایسا کہے گا میں اپنی اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے فرمانے لگے چلو چلتے ہیں۔ چنانچہ میں ان کے ہمراہ چل پڑا۔ جب آپ تشریف لائے تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جمع ہو چکے تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو! مجھے راستہ دو، چنانچہ لوگوں نے آپ کے لیے راستہ خالی کر دیا۔ آپ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا (بوسہ دیا) اور یہ آیت پڑھی ﴿إِنَّكَ مَیِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَیِّتُوْنَ﴾(سورۃ الزمر:۳۹) بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فو ت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی فوت ہونے والے ہیں۔ لوگوں نے کہا: اے رسول اللہ کے ساتھی! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں ؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ لوگوں کو یقین آگیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر لوگ کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ بھی پڑھیں گے؟ فرمایا: ہاں۔ تو انہوں نے عرض کیا: کیسے؟ فرمایا: ایک جماعت حجرہ کے اندر جائے، وہ تکبیر کہے، دعا کرے اور آپ پر درود پڑھ کر باہر آجائے، پھر دوسری جماعت داخل ہو، وہ تکبیر کہے، درود پڑھے اور دعا کر کے باہر آجائے۔ اس طرح سب لوگ نماز جنازہ پڑھیں۔ پھر لوگوں نے پوچھا: اے صاحب رسول! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا جائے گا؟ فرمایاہاں۔ پوچھا کس جگہ؟ فرمایا: اسی جگہ جہاں آپ کی روح قبض کی گئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح کو پاکیزہ جگہ پر ہی قبض کیا ہے۔ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی غسل دیں۔ اس دوران میں مہاجرین جمع ہو کر (امر خلافت کے بارے میں ) مشورہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: آؤ! اپنے انصاری بھائیوں کےپاس بھی چلیں تاکہ انہیں بھی اس معاملہ میں اپنے ساتھ شریک کر لیں۔ (جب ان کے پاس گئے) تو انہوں نے کہا: ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ اس کے جواب میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ کون شخص ہے جو ان تین فضائل سے متصف ہو (جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں بیان کر دیا ہے) (۱) دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے (۲)جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی سے فرمایا، خوف نہ کھاؤ (۳)بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ دونوں کون تھے؟ راوی بیان کرتا ہے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر دوسرے لوگوں نے بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر نہایت اچھی اور خوش اسلوبی سے بیعت کی۔‘‘
تشریح : ٭ أُغْمِيَ عَلَیْهِ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں بار بار بے ہوش ہو جاتے، یہ ضعف بدن کی وجہ سے تھا نہ کہ محض بے ہوشی؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بخار کی وجہ سے زیادہ ہی کمزور ہو گئے تھے۔ ٭ فَإِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ: وجہ شبہ یہ ہے کہ عزیز مصر کی عورت زلیخا نے عورتوں کو مہمان نوازی کے طور پر دعوت دی مگر اس کی نیت اس سے زائد تھی اور وہ یہ کہ ان کو یوسف علیہ السلام کا حسن دیکھایا جائے تاکہ وہ اس کو یوسف علیہ السلام کے ساتھ محبت کرنے پر معذور سمجھیں اور اس کو ملامت کرنا ترک کر دیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والدِ محترم سے امامت کو ہٹانے کی وجہ یہ بیان کی کہ وہ غمگین ہیں اس لیے مقتدیوں کو قرأت کی آواز نہیں سنا سکیں گے کیونکہ وہ دورانِ قراء ت رو پڑیں گے مگر درحقیقت ان کے دل میں اس سے زائد مقصد بھی تھا اور وہ یہ کہ لوگ ان سے نحوست پکڑیں گے کیونکہ جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑا ہوگا لوگ اسے اچھا نہیں سمجھیں گے۔ جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم کی روایات میں اس کی صراحت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب مرض النبي صلى الله علیه وسلم ووفاته، حدیث:۴۴۴۵۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام، حدیث:۹۳؍۴۱۸۔) ٭ وَأُمِرَ اَبُوْبَکْرٍ فَصَلَّی بِالنَّاسِ: اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تو انہوں نے نماز پڑھائی، علامہ دمیاطی کہتے ہیں کہ اس دوران میں کل سترہ نمازیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پڑھائیں۔ ٭ فَجَاءَتْ بَرِیْرَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ: بریرہ اور ایک دوسرا آدمی آئے....صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں دو آدمیوں کا ذکر ہے۔ ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکی تفسیر کے مطابق سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے۔ اسی طرح ایک روایت میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہماکا ذکر آتا ہے دیگر روایات میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، حضرت ثوبان رضي الله عنه، قثم بن عباس رضی اللہ عنہماکا ذکر آتا ہے ان روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ یہ تمام لوگ باری باری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتے رہے اور متعدد دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے۔( دیکھئے: فتح الباري (۲؍۲۶۲)۔) ٭ حدیث الباب سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کمالِ علم و فضل اور کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے علم کی گہرائی معلوم ہوتی ہے نیز سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حوصلہ، ضبط اور بردباری کا پتہ چلتا ہے۔ ٭ اس حدیث سے واضح ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ عام طریقہ کے مطابق باجماعت ادا نہیں کی گئی تھی بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق دس دس افراد نے حجرہ مبارک میں داخل ہو کر حمدوثنا اور درود پڑھا اور دعا کی تھی۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ابن ماجة، کتاب إقامة الصلوة والسنة فیها، باب ماجاء في صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه، صحیح ابن خزیمة (۳؍۲۰،۵۹)، المعجم الکبیر للطبراني (۷؍۵۶ برقم ۶۳۶۷)، حلیة الأولیاء (۱؍۳۷۱)، دلائل النبوة (۷؍۲۵۹)، السنن الکبری للنسائي، کتاب الوفاة (۴۲،۴۳) ٭ أُغْمِيَ عَلَیْهِ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں بار بار بے ہوش ہو جاتے، یہ ضعف بدن کی وجہ سے تھا نہ کہ محض بے ہوشی؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بخار کی وجہ سے زیادہ ہی کمزور ہو گئے تھے۔ ٭ فَإِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ: وجہ شبہ یہ ہے کہ عزیز مصر کی عورت زلیخا نے عورتوں کو مہمان نوازی کے طور پر دعوت دی مگر اس کی نیت اس سے زائد تھی اور وہ یہ کہ ان کو یوسف علیہ السلام کا حسن دیکھایا جائے تاکہ وہ اس کو یوسف علیہ السلام کے ساتھ محبت کرنے پر معذور سمجھیں اور اس کو ملامت کرنا ترک کر دیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والدِ محترم سے امامت کو ہٹانے کی وجہ یہ بیان کی کہ وہ غمگین ہیں اس لیے مقتدیوں کو قرأت کی آواز نہیں سنا سکیں گے کیونکہ وہ دورانِ قراء ت رو پڑیں گے مگر درحقیقت ان کے دل میں اس سے زائد مقصد بھی تھا اور وہ یہ کہ لوگ ان سے نحوست پکڑیں گے کیونکہ جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑا ہوگا لوگ اسے اچھا نہیں سمجھیں گے۔ جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم کی روایات میں اس کی صراحت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب مرض النبي صلى الله علیه وسلم ووفاته، حدیث:۴۴۴۵۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام، حدیث:۹۳؍۴۱۸۔) ٭ وَأُمِرَ اَبُوْبَکْرٍ فَصَلَّی بِالنَّاسِ: اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تو انہوں نے نماز پڑھائی، علامہ دمیاطی کہتے ہیں کہ اس دوران میں کل سترہ نمازیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پڑھائیں۔ ٭ فَجَاءَتْ بَرِیْرَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ: بریرہ اور ایک دوسرا آدمی آئے....صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں دو آدمیوں کا ذکر ہے۔ ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکی تفسیر کے مطابق سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے۔ اسی طرح ایک روایت میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہماکا ذکر آتا ہے دیگر روایات میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، حضرت ثوبان رضي الله عنه، قثم بن عباس رضی اللہ عنہماکا ذکر آتا ہے ان روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ یہ تمام لوگ باری باری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتے رہے اور متعدد دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے۔( دیکھئے: فتح الباري (۲؍۲۶۲)۔) ٭ حدیث الباب سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کمالِ علم و فضل اور کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے علم کی گہرائی معلوم ہوتی ہے نیز سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حوصلہ، ضبط اور بردباری کا پتہ چلتا ہے۔ ٭ اس حدیث سے واضح ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ عام طریقہ کے مطابق باجماعت ادا نہیں کی گئی تھی بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق دس دس افراد نے حجرہ مبارک میں داخل ہو کر حمدوثنا اور درود پڑھا اور دعا کی تھی۔