كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: ((قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ فَمَكَثَ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَيْلَةَ الثُّلَاثَاءِ، وَدُفِنَ مِنَ اللَّيْلِ)) وَقَالَ سُفْيَانُ: " وَقَالَ غَيْرُهُ: يُسْمَعُ صَوْتُ الْمَسَاحِي مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کابیان
’’جعفر بن محمد اپنے والد (محمد الباقر) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن فوت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک سوموار اور منگل کی رات تک (لوگوں کے درمیان) رہا اور پھر رات کو تدفین عمل میں آئی۔ راوی سفیان بن عینیہ اور دیگر فرماتے ہیں : رات کے آخری حصہ میں پھاؤڑوں کی آواز سنی گئی۔‘‘
تشریح :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر اس لیے کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں فجأۃ تھی تو وفات کے یقینی وقوع کے انتظار میں، نیز اس عظیم مصیبت اور بہت بڑی آزمائش نے مسلمانوں کے ذہنوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کچھ بولنے سے عاجز ہو گئے، کچھ بالکل بیہوش ہو گئے اور بعض نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں شک کیا۔ اس کے علاوہ نمازِ جنازہ کا طریقہ اور اس پر صرف ہونے والا وقت بھی تاخیر کی ایک وجہ ہے۔ علاوہ ازیں اجتماعی معاملات میں باقاعدگی پیدا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کا تقرر بھی ضروری تھا۔ ان تمام معاملات کو سلجھانے کے بعد جسدِ اطہر کو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں سپرد خاک کیا گیا۔
تخریج :
یہ روایت سند کے اعتبار سے مرسل ہے۔ اگرچہ متن صحیح ہے۔ طبقات ابن سعد (۲؍۲۷۳)، مسند احمد بن حنبل (۶؍۶۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر اس لیے کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں فجأۃ تھی تو وفات کے یقینی وقوع کے انتظار میں، نیز اس عظیم مصیبت اور بہت بڑی آزمائش نے مسلمانوں کے ذہنوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کچھ بولنے سے عاجز ہو گئے، کچھ بالکل بیہوش ہو گئے اور بعض نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں شک کیا۔ اس کے علاوہ نمازِ جنازہ کا طریقہ اور اس پر صرف ہونے والا وقت بھی تاخیر کی ایک وجہ ہے۔ علاوہ ازیں اجتماعی معاملات میں باقاعدگی پیدا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کا تقرر بھی ضروری تھا۔ ان تمام معاملات کو سلجھانے کے بعد جسدِ اطہر کو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں سپرد خاک کیا گیا۔