شمائل ترمذی - حدیث 388

كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: ((لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، وَمَا نَفَضْنَا أَيْدِيَنَا مِنَ التُّرَابِ، وَإِنَا لَفِي دَفْنِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 388

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کابیان ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (ہجرت کے موقع پر) مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو مدینہ کی ہر شیء روشن تھی اور جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ہر شی (غم کی وجہ سے) تاریک تھی۔ ہم نے ابھی ہاتھوں سے خاک نہ جھاڑی تھی اور دفن میں مشغول تھے کہ اسی دوران ہی ہم نے اپنے دلوں کو پہلے سے اجنبی محسوس کیا۔‘‘
تشریح : ٭ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مدینہ کی ہر شیء روشن نظر آتی تھی اور جب دس سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کے لیے رختِ سفر باندھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم کی وجہ سے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو ہر چیز تاریک نظر آتی تھی۔ ان پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ اگلی روایات میں جانثاران مصطفی کی پریشانی کے مذید احوال مذکور ہیں۔ ٭ حَتّٰی أَنْکَرْنَا قُلُوْبَنَا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے یہ کلمہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں میں وہ کیفیت اور نرمی محسوس نہیں کر رہے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہوتی تھی۔ بعض بد باطن شیعہحضرات نے یہاں سے یہ دلیل لی ہے کہ (نعوذ باللہ) صحابہ تمام کے تمام مرتد ہو گئے تھے۔ یہ خیال باطل ہے حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله عنہم اپنے دلوں میں وہ کیف و سرور اور نرمی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں محسوس کرتے تھے، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی اور مفارقت کی وجہ سے مفقود ہو گئی، پھر جب ان کی طبائع سنبھل گئیں تو تمام معاملات درست ہو گئے۔ واللہ اعلم۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب المناقب، باب في فضل النبي صلى الله عليه وسلم (۵؍۳۶۱۸)، سنن ابن ماجة، کتاب الجنائز (۱؍۱۶۳۱)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۲۲۱، ۲۶۸)، صحیح ابن حبان (۸؍۲۱۸)، مستدرك حاکم (۳؍۵۷) امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا: یہ حدیث صحیح مسلم کے روایت کرنے والوں نے روایت کی ہے۔ اور امام ذھبی رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے۔ طبقات ابن سعد (۲؍۲۷۴) ٭ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مدینہ کی ہر شیء روشن نظر آتی تھی اور جب دس سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کے لیے رختِ سفر باندھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم کی وجہ سے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو ہر چیز تاریک نظر آتی تھی۔ ان پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ اگلی روایات میں جانثاران مصطفی کی پریشانی کے مذید احوال مذکور ہیں۔ ٭ حَتّٰی أَنْکَرْنَا قُلُوْبَنَا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے یہ کلمہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں میں وہ کیفیت اور نرمی محسوس نہیں کر رہے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہوتی تھی۔ بعض بد باطن شیعہحضرات نے یہاں سے یہ دلیل لی ہے کہ (نعوذ باللہ) صحابہ تمام کے تمام مرتد ہو گئے تھے۔ یہ خیال باطل ہے حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله عنہم اپنے دلوں میں وہ کیف و سرور اور نرمی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں محسوس کرتے تھے، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی اور مفارقت کی وجہ سے مفقود ہو گئی، پھر جب ان کی طبائع سنبھل گئیں تو تمام معاملات درست ہو گئے۔ واللہ اعلم۔